Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 92 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ۪ - تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَﭤ(92)اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَ هُمْ اَغْنِیَآءُۚ-رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِۙ-وَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(93)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ:اور نہ ان پر کوئی حرج ہے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو اپنے ساتھ جہاد میں جانے کا حکم دیا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی، ان میں حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے، انہوں نے عرض کی! یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں کوئی سواری عطا کیجئے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا ’’اللہ کی قسم ! میرے پاس کوئی سواری نہیں کہ جس پر میں تمہیں سوار کروں۔ وہ روتے ہوئے واپس چلے گئے کیونکہ جہاد سے رہ جانا ان پر بہت گراں تھا اور ان کے پاس زادِ راہ تھا، نہ سواری۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت اور جہاد پر حرص کی وجہ سے ان کے عذر میں یہ آیتیں بیان فرمائیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۱۸۶۳-۱۸۶۴)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جذبۂ جہاد:
اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول کے واقعہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے جذبہ ِ جہاد ، شوقِ عبادت اور ذوقِ اطاعت کاپتہ چلتا ہے کہ ایک طرف تو منافقین ہیں جو قدرت ہونے کے باوجود جھوٹے حیلے بہانے کرکے جہاد سے جان چھڑاتے ہیں اور ایک طرف یہ کامل الایمان، مخلص غلام ہیں جو شرعاً رخصت و اجازت ہونے کے باوجود جہاد نہ کرسکنے اور اس عبادت میں شریک نہ ہوسکنے کے غم میں آنسو بہارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ذوق و شوق عطا فرمائے۔
{اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ:مواخذہ تو ان لوگوں پر ہے۔} یعنی مُواخَذہ تو ان لوگوں پر ہے جو جہاد میں جانے کی قدرت رکھتے ہیں ، اس کے باوجود آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رخصت مانگتے ہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۴۵۰)