banner image

Home ur Surah Al Waqiah ayat 59 Translation Tafsir

اَلْوَاقِعَة

Al Waqiah

HR Background

نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ(57)اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَﭤ(58)ءَاَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗۤ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ(59)

ترجمہ: کنزالایمان ہم نے تمہیں پیدا کیا تو تم کیوں نہیں سچ مانتے ۔ تو بھلا دیکھو تو وہ منی جو گراتے ہو ۔ کیا تم اس کا آدمی بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان ہم نے تمہیں پیدا کیا تو تم کیوں سچ نہیں مانتے؟ تو بھلا دیکھو تو وہ منی جو تم گراتے ہو۔ کیا تم اسے (آدمی) بناتے ہو یا ہم ہی بنانے والے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ:ہم نے تمہیں  پیدا کیا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی ابتدائی تخلیق سے اپنی قدرت اور وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو!تمہیں  یہ بات معلوم ہے کہ تم کچھ بھی نہیں  تھے ،ہم تمہیں  عدم سے وجود میں  لے کر آئے تو تم مرنے کے بعد اٹھنے کوکیوں  سچ نہیں  مانتے حالانکہ جو پہلی بار پیدا کرنے پہ قادر ہے تو وہ دوبارہ پیدا کرنے پر (بدرجہ اَولیٰ) قادرہے۔ اور اگر تمہیں  اس بات میں کہ ہم تمہیں  عدم سے وجود میں  لائے ہیں  ، شک ہے تویہ بتاؤ کہ منی کے ایک قطرے سے جوبچہ پیدا ہوتا ہے، کیا اس سے عورتوں  کے رحم میں  لڑکے یا لڑکی کی شکل و صورت تم بناتے ہو یا ہم ہی اسے انسانی صورت دیتے ہیں  اور اسے زندگی عطا فرماتے ہیں ؟ جب ہم بے جان نطفے کو انسانی صورت عطا کرسکتے ہیں  تو پیداہونے کے بعد مر جانے والوں  کو زندہ کرنا ہماری قدرت سے کیا بعید ہے۔( خازن، الواقعۃ،تحت الآیۃ:۵۷-۵۹، ۴ / ۲۲۱، جلالین، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ص ۴۴۷، تفسیر کبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۱۰ / ۴۱۵-۴۱۶، روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۹ / ۳۳۰-۳۳۱، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنا کیسا ہے؟

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یاد رکھیں  کہ(قرآنِ پاک میں ) جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں  جمع کے صیغہ کے ساتھ کوئی خبر دے تو اس وقت وہ اپنی ذات، صفات اور اَسماء کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘(حجر:۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیاہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

            اور جب اللہ تعالیٰ واحد کے صیغہ کے ساتھ اپنی ذات کے بارے میں  کوئی خبر دے تو اس وقت وہ صرف اپنی ذات کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’ اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(قصص:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں  ہی اللہ ہوں ،سارےجہانوں  کاپالنے والاہوں ۔

                 اور یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ خود خبر دے، البتہ بندے پر لازم ہے کہ وہ( ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے لئے واحد کا صیغہ بولے کبھی جمع کا صیغہ نہ بولے ،جیسے )یوں  کہے کہ اے اللہ! تو میرا رب ہے ،یوں (ہر گز) نہ کہے کہ اے اللہ! آپ میرے رب ہیں ، کیونکہ اس میں  شرک کا شائبہ ہے جو تَوحید کے مُنافی ہے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۹ / ۳۳۰) یعنی مناسب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے واحد کا صیغہ استعمال کیاجائے۔