Home ≫ ur ≫ Surah Al Waqiah ≫ ayat 60 ≫ Translation ≫ Tafsir
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ وَ مَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ(60)عَلٰۤى اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ وَ نُنْشِئَكُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(61)
تفسیر: صراط الجنان
{ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ: ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کردی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی حکمت اور مَشِیَّت کے تقاضے کے مطابق تم میں موت مقرر کر دی اور تمہاری عمریں مختلف رکھیں ،اسی لئے تم میں سے کوئی بچپن میں ہی مرجاتا ہے ،کوئی جوان ہو کر، کوئی بڑھاپے اور جوانی کے درمیان عمر میں اور کوئی بڑھاپے تک پہنچ کر مر جاتاہے،الغرض جو ہم مقدر کرتے ہیں وہی ہوتا ہے۔اور ہم اس بات سے پیچھے رہ جانے والے(بے بس) نہیں ہیں کہ تمہیں ہلاک کر کے تم جیسے اور بدل دیں اور تمہیں مَسخ کرکے بندر ،سور وغیرہ کی ان صورتوں میں بنادیں جن کی تمہیں خبر نہیں ۔ جب یہ سب ہماری قدرت میں ہے تو تمہیں دوبارہ پیدا کرنے سے ہم عاجز کس طرح ہو سکتے ہیں ؟(خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۱، ۴ / ۲۲۱، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۱، ص۱۲۰۲، ملتقطاً)
انسان کو کہیں بھی اورکسی بھی وقت موت آ سکتی ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کو موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے اور کسی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بڑھاپے میں ہی موت کا شکار ہو بلکہ بھری جوانی میں اورمُتَوَسّط عمر میں بھی موت اپنے پنجے گاڑ سکتی ہے اوراس کیلئے کوئی جگہ بھی خاص نہیں بلکہ کہیں بھی آ سکتی ہے اور اس سے کسی صورت فرار ہونا بھی ممکن نہیں نیز کسی کو بھی ا س بات کی خبر نہیں کہ اس کی موت کب اور عمر کے کس حصے میں اور کہاں پر آئے گی ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت نیک اعمال میں مصروف رہے ،اپنی لمبی عمر پر بھروسہ نہ کرے اور آخرت کی تیاری سے کسی بھی وقت غفلت نہ کرے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا میں ایسے رہو گویاتم مسافر ہو یا راہ گیر اور اپنے آپ کو قبر والوں میں سے شمار کرو ۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الرقاق، باب الامل والحرص، الفصل الاول، ۲ / ۲۵۹، الحدیث: ۵۲۷۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے درمیان میری مثال اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قوم کو نصیحت کرنے والا ہے ،اس نے قوم کے پاس آ کر کہا: میں ڈرانے والا ہوں اور موت حملہ آور ہونے والی ہے اور قیامت وعدے کی جگہ ہے ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۳۸، الحدیث: ۸۶)
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے وعظ کے دوران فرماتے ’’جلدی کرو،جلدی کرو،کیونکہ یہ چند سانس ہیں ،اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر سکتے ہیں ۔اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنی جان کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی، بیان المبادرۃ الی العمل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۵)
حضرت فضیل رقاشی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اے فلاں ! لوگوں کی کثرت کے باعث اپنے آپ سے غافل نہ ہو کیونکہ معاملہ خاص تم سے ہو گا ان سے نہیں اور یہ نہ کہو کہ میں وہاں جاتا ہوں اور وہاں جاتا ہوں ،اس طرح تمہارا دن ضائع ہو جائے گا اور موت تمہارے اوپر مُتَعَیَّن ہے اور جتنی جلدی نئی نیکی پرانے گناہ کو تلاش کر کر کے پکڑتی ہے اتنی جلدی تم نے کسی کو پکڑتے نہ دیکھا ہو گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی، بیان المبادرۃ الی العمل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۶)