Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 100 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًاۚ-وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ٘-قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّاؕ-وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(100)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ:اوراس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے اور دربارِ شاہی میں اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا، اس کے بعد والدین اور سب بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کیا ۔ یہ سجدۂ تعظیم اور عاجزی کے اظہار کے طور تھا اور اُن کی شریعت میں جائز تھا جیسے ہماری شریعت میں کسی عظمت والے کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا، مصافحہ کرنا اور دست بوسی کرنا جائز ہے۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۵۴۵)
یاد رہے کہ سجدۂ عبادت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اورکسی کے لئے کبھی جائز نہیں ہوا اورنہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ شرک ہے اور سجدۂ تعظیمی بھی ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ سجدۂ تعظیمی کی حرمت سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 22ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ ‘‘(غیر اللّٰہ کے لئے سجدۂ تعظیمی حرام ہونے کا بیان) مطالعہ کیجئے۔
{وَ قَالَ:اور یوسف نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب انہیں سجدہ کرتے دیکھا تو فرمایا : اے میرے باپ! یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن کی حالت میں دیکھا تھا۔ بیشک وہ خواب میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے بیداری کی حالت میں سچا کردیا اور بیشک اس نے قید سے نکال کر مجھ پر احسان کیا ۔ اس موقع پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کنوئیں کا ذکر نہ کیا تاکہ بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو ۔ مزید فرمایا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں حسد کی وجہ سے ناچاقی کروا دی تھی تو اس کے بعد میرا رب عَزَّوَجَلَّ آپ سب کو گاؤں سے لے آیا۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ جس بات کو چاہے آسان کردے، بیشک وہی اپنے تمام بندوں کی ضروریات کو جاننے والااور اپنے ہر کام میں حکمت والا ہے۔
حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات:
تاریخ بیان کرنے والے علما فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس مصر میں چوبیس سال بہترین عیش و آرام میں اور خوش حالی کے ساتھ رہے، جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کووصیت کی کہ آپ کا جنازہ ملک ِشام میں لے جا کر ارضِ مقدّسہ میں آپ کے والد حضرت اسحٰق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جائے ۔اس وصیت کی تعمیل کی گئی اور وفات کے بعد ساج کی لکڑی کے تابوت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسد ِاطہر شام میں لایا گیا ،اسی وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی عیص کی وفات ہوئی ،آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ساتھ ہوئی تھی اور دفن بھی ایک ہی قبر میں کئے گئے اور دونوں صاحبوں کی عمر147(یا 145)سال تھی۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والد اور چچا کو دفن کرکے مصر کی طرف واپس روانہ ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا کی جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۴۶-۴۷)