banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 24 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24)

ترجمہ: کنزالایمان اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور بیشک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا اوراگروہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تووہ بھی عورت کا ارادہ کرتا۔ ہم نے اسی طرح کیاتاکہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں ،بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ:اور بیشک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا۔} یعنی زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے برائی کاا رادہ کیا اور اگرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ بھی عورت کی طرف مائل ہو جاتے لیکن حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب تعالیٰ کی دلیل دیکھی اور اس فاسد ارادے سے محفوظ رہے اور وہ دلیل وبُرہان عِصْمت ِنبوت ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاکیزہ نُفوس کو برے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہے اور پاکیزہ، مُقَدّس اور شرافت والے اَخلاق پر ان کی پیدائش فرمائی ہے، اس لئے وہ ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درپے ہوئی اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا کہ انگشت ِمبارک دندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اِجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۹۴-۹۵، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۴، ملتقطاً)

          تنبیہ:ان آیات میں ذکر کئے گئے واقعے سے متعلق بحث کرنے سے بچناہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی کی عصمت کا ہے اور بحث کرنا کہیں ایمان کی بربادی کا سبب نہ بن جائے ۔

{كَذٰلِكَ:اسی طرح۔} یعنی جس طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دلیل دکھائی اسی طرح ہم اس سے ہربرائی اور بے حیائی کو پھیر دیں گے اور بیشک حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے ان بندوں میں سے ہے جنہیں ہم نے نبوت کے لئے منتخب فرما لیا ہے اور دوسرے لوگوں پر انہیں اختیار کیا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۵)

 پاک دامن رہنے اور قدرت کے باوجود گناہ سے بچنے کے فضائل:

          اَحادیث میں پاک دامن رہنے اور قدرت کے باوجود بدکاری سے بچنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ، ترغیب کے لئے4 اَحادیث اور ایک حکایت درج ذیل ہے۔

(1)…حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو مجھے اپنے دونوں جبڑوں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان والی چیز (یعنی زبان اور شرمگاہ) کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، ۴ / ۲۴۰، الحدیث: ۶۴۷۴)

(2)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے قریش کے جوانو! اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور زِنا نہ کرو، سن لو! جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اس کے لئے جنت ہے۔(شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۵۴۲۵)

(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔ (حلیۃ الاولیاء، الربیع بن صبیح، ۶ / ۳۳۶، الحدیث: ۸۸۳۰)

(4)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے (عرش کے) سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں ایک) وہ شخص ہے جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے (اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے) طلب کیا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث:۶۶۰)

ٹوکریاں بیچنے والا نوجوان:

            حضرت ابوعبداللہ بلخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا جس سے زیادہ حسن و جمال والا کوئی نوجوان کبھی دیکھا نہ گیا ،وہ ٹوکر یاں بیچا کرتا تھا ۔ ایک دن یوں ہواکہ وہ اپنی ٹوکریاں لے کر(انہیں بیچنے کے لئے) گھوم رہا تھا کہ بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ کے محل سے ایک عورت نکلی ،جب اس نے نوجوان کو دیکھا تو جلدی سے واپس لوٹ گئی اور بادشاہ کی شہزادی سے کہا :میں نے گھر سے ایک نوجوان کو ٹوکریاں بیچتے ہوئے دیکھا ( وہ اتنا خوبصورت ہے کہ)میں نے اس سے زیادہ حسین و جمیل نوجوان کبھی نہیں دیکھا ۔( یہ سن کر) شہزادی نے کہا: اسے لے آؤ۔ وہ عورت ا س کے پاس گئی اور کہا: اے نوجوان!اندر آ جاؤ، ہم تم سے خریداری کریں گے ۔نوجوان (محل میں ) داخل ہو ا تو عورت نے اس کے پیچھے دروازہ بند کر دیا ،پھر ا س سے کہا: داخل ہو جاؤ۔ وہ داخل ہوا تو اس نے پیچھے سے دوسرا دروازہ بند کر دیا، پھر وہ عورت نوجوان کو شہزادی کے سامنے لے گئی  جس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھایا ہوا تھا اور اس کا سینہ بھی عُریاں تھا۔ (جب نوجوان نے شہزادی کو اس حالت میں دیکھا) تواس نے شہزادی سے کہا: اللہ تعالیٰ  تجھے معاف فرمائے، تم (اپنا چہرہ اور سینہ) چھپا لو۔ شہزادی نے کہا: ہم نے تمہیں نصیحت کرنے کے لئے نہیں بلایا بلکہ محض اس مقصد کے لئے بلایا ہے( کہ ہم تجھ سے اپنی شہوت کی تسکین کرنا چاہتے ہیں۔)  نوجوان نے اس سے کہا : تو (اس معاملے میں ) اللہ تعالیٰ سے ڈر۔ شہزادی نے کہا: میری مراد پوری کرنے میں اگر تو نے میری بات نہ مانی تو میں بادشاہ کو بتا دوں گی کہ تم میرے پاس صرف میرے نفس پر غالب آنے کے لئے آئے ہو۔ نوجوان نے پھر انکار کیا اور اسے نصیحت کی ، جب ا س نے (نصیحت ماننے سے) انکار کر دیا تو نوجوان نے کہا : میرے لئے وضو کا انتظام کر دو۔ شہزادی نے کہا : کیا تو مجھے دھوکہ دینا چاہتا ہے؟ اے خادمہ: اس کے لئے محل کی چھت پر وضو کا برتن رکھ دو تا کہ یہ فرار نہ ہوسکے ۔ محل کی چھت زمین سے تقریباً 40 گز اونچی تھی، جب وہ نوجوان چھت پر پہنچ گیا تو اس نے (دعا مانگتے ہوئے ) عرض کی:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے تیری نافرمانی کی طرف بلایا جا رہا ہے اور میں اپنے نفس سے صبر کرنے کو اختیار کر رہا ہوں ، (مجھے یہ منظور ہے کہ) اپنے آپ کو اس محل سے نیچے گرا دو ں اور گناہ نہ کروں ،پھر اس نے بِسْمِ اللہ پڑھی اور خود کو محل کی چھت سے نیچے گرا دیا ۔

            اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جس نے اسے بازؤں سے پکڑا اور پاؤں کے بل زمین پر کھڑا کر دیا، جب وہ نوجوان زمین پر اتر آیاتو عرض کی : اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، اگر توچاہے تومجھے ایسا رزق دے سکتا ہے جو مجھے یہ ٹوکریاں بیچنے سے بے نیاز کر دے ۔ (جب اس نے یہ دعا کی) تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ایک بوری بھیجی جو سونے سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے بوری سے سونا بھرنا شرو ع کردیا یہا ں تک کہ اس نے اپنا کپڑا بھر لیا۔ پھر اس نے عرض کی: ’’ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،

اگر یہ اسی رزق کا حصہ ہے جو تو نے مجھے دنیا میں دینا تھا تو مجھے اس میں برکت عطا فرما او راگر یہ میرے اس اجر و ثواب میں سے کچھ کم کر دے گا جو تیرے پاس آخرت میں ہے تو مجھے اس سونے کی حاجت نہیں۔ (جب اس نوجوان نے یہ کہا) تو اسے ایک آواز سنائی دی : جو سونا ہم نے تجھے عطا کیا ، یہ اس اجر کا پچیسواں حصہ ہے جو تجھے خود کو اس محل سے گرانے پر صبر کرنے سے ملا ہے۔ اس نوجوان نے کہا: ’’ اے میرے پروردگار! عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسے مال کی حاجت نہیں جو میرے اس ثواب میں کمی کا باعث بنے جو آخرت میں تیرے پاس ہے ۔ (جب نوجوان نے یہ بات کہی) تو وہ سونا اٹھا لیا گیا۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ الخامسۃ والعشرون بعد المائۃ، ص۱۴۲-۱۴۳)