Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 31 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْهِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً وَّ اٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُ جْ عَلَیْهِنَّۚ-فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ وَ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ وَ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًاؕ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ(31)
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ:تو جب اس عورت نے ان کی بات سنی۔} یعنی جب زلیخانے سنا کہ اَشرافِ مصر کی عورتیں اسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی محبت پر ملامت کرتی ہیں تو اس نے چاہا کہ وہ اپنا عذر ان کے سامنے ظاہر کردے،چنانچہ اس کے لئے اس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اس دعوت میں اشراف ِمصر کی چالیس عورتوں کو مدعو کرلیا، ان میں وہ سب عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اس پر ملامت کی تھی، زلیخا نے ان عورتوں کو بہت عزت و احترام کے ساتھ مہمان بنایا اور ان کیلئے نہایت پرتکلف نشستیں تیار کردیں جن پر وہ بہت عزت و آرام سے تکیے لگا کر بیٹھیں ، دستر خوان بچھائے گئے اور طرح طرح کے کھانے اور میوے اس پرچنے گئے۔ پھر زلیخا نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دیدی تاکہ وہ اس سے کھانے کے لئے گوشت کاٹیں اور میوے تراش لیں ، اس کے بعد زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عمدہ لباس پہننے کیلئے دیا اور کہا ’’ان عورتوں کے سامنے نکل آئیے۔ پہلے تو آپ نے اس سے انکار کیا لیکن جب اِصرار و تاکید زیادہ ہوئی توزلیخا کی مخالفت کے اندیشے سے آپ کو آنا ہی پڑا۔ جب عورتوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا توان کی بڑائی پکار اُٹھیں کیونکہ انہوں نے اس عالَم افروز جمال کے ساتھ نبوت و رسالت کے اَنوار ،عاجزی و اِنکساری کے آثار ،شاہانہ ہَیبت واِقتدار اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور حسین و جمیل صورتوں کی طرف سے بے نیازی کی شان دیکھی تو تعجب میں آگئیں اور آپ کی عظمت وہیبت دلوں میں بھر گئی اور حسن و جمال نے ایسا وارفتہ کیا کہ ان عورتوں کو خود فراموشی ہو گئی اور ان کے حسن و جمال میں گم ہوکر پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور ہاتھ کٹنے کی تکلیف کا اصلاً احساس نہ ہوا۔ وہ پکار اٹھیں کہ سُبْحَانَ اللہ، یہ کوئی انسان نہیں ہے کہ ایسا حسن و جمال انسانوں میں دیکھا ہی نہیں گیا اور اس کے ساتھ نفس کی یہ طہارت کہ مصر کے اعلیٰ خاندانوں کی حسین و جمیل عورتیں ، طرح طرح کے نفیس لباسوں اور زیوروں سے آراستہ وپیراستہ سامنے موجود ہیں اور آپ کی شانِ بے نیازی ایسی کہ کسی کی طرف نظر نہیں فرماتے اور قطعاً اِلتفات نہیں کرتے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۷-۱۸، تفسیر کبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۴۴۸، ملتقطاً)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس واقعے کی طرف اشارہ کر کے بڑے حسین انداز میں شانِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زَناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پر مردانِ عرب
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن میں فرق:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حسن کا ایک حصہ عطا کیا گیا تھا اور ان کا حسن ظاہر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن کو اپنے جلال کے پردوں میں نہیں چھپایا ،اسی لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن کا نظارہ کر کے عورتیں فتنے میں مبتلا ہو گئیں جبکہ حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کامل حسن عطا کیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جمال کو اپنے جلال کے پردوں میں چھپا دیا تھا جس کی وجہ سے آپ کا حسنِ کامل دیکھ کر بھی کوئی عورت فتنے میں مبتلا نہ ہوئی یہی وجہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سراپا اَقدس کی تفصیلات بڑے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مروی نہیں بلکہ چھوٹے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے منقول ہیں کیونکہ بڑے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دلوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہبیت و جلال اس قدر تھی کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف نظر نہ اٹھا سکتے تھے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۹۴۸، ملخصاً)