Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 37 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَاؕ-ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْؕ-اِنِّیْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(37)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان دونوں سے فرمایا: تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتا دوں گا جو تم نے میرے سامنے بیان کیا ہے۔ (بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۸۷-۲۸۸) دوسری تفسیر یہ ہے کہ تم نے خواب میں جو کھانا دیکھا اور اس کے بارے میں مجھے خبر دی ہے، میں حقیقت میں اس طرح ہونے سے پہلے ہی تمہیں اس کی تعبیر بتا دوں گا۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ تمہارے گھروں سے جو کھانا تمہارے لئے آتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی مقدار ، اس کا رنگ ، تمہارے پاس آنے سے پہلے اس کے آنے کا وقت اور یہ کہ تم نے کیا کھایا ،کتنا کھایا اور کب کھایا بتا دوں گا۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۹۵۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰، ملتقطاً)
{ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ:یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔}حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر ان دونوں قیدیوں نے کہا ’’یہ علم تو کاہنوں اور نجومیوں کے پاس ہوتا ہے ،آپ کے پاس یہ علم کہاں سے آیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں کاہن یا نجومی نہیں ہوں ، جس کے بارے میں ، میں تمہیں خبر دوں گا وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف فرمائی اور یہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے۔ بیشک میں نے ان لوگوں کے دین کونہ مانا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰)
یہاں خواب کی تعبیر سے متعلق ذکر ہوا،اس مناسبت سے ہم یہاں خواب بتانے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے والے مشہور علما اور اس موضوع پر مشتمل کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر سے متعلق حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک معمول بھی بیان کرتے ہیں :
خواب کے بارے میں تین اَحادیث :
(1)… صرف اس کے سامنے خواب بیان کیا جائے جو اس کی صحیح تعبیر بتا سکتا ہو یا وہ اس سے محبت رکھتا ہو یا وہ قریبی دوست ہو، حاسدوں اور جاہلوں کے سامنے خواب بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔ صحیح بخاری میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسندنہ ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہئے اور (اپنی بائیں طرف )تین مرتبہ تھتکاردے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا ۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب اذا رأی ما یکرہ فلا یخبر بہا ولا یذکرہا، ۴ / ۴۲۳، الحدیث: ۷۰۴۴)
(2)…اپنی طرف سے خواب بنا کر بیان نہ کیا جائے کہ اس پر حدیث پاک میں سخت وعید بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص ایسی خواب گھڑے جو اس نے دیکھی نہ ہو تو اسے اس چیز کا پابند کیا جائے گا کہ وہ جَوکے دو دانوں میں گرہ لگائے اوروہ ہر گزایسا نہ کرسکے گا۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب من کذب فی حلمہ، ۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۷۰۴۲)
(3)…ڈراؤنے خواب دیکھنے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی خواب سے گھبرا جائے تو کہہ لے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُونِ‘‘ میں اللہ کے پورے کلمات کی پناہ لیتا ہوں اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر اور شیطانوں کے وسوسوں اور ان کی حاضری سے۔‘‘ تو تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۳-باب، ۵ / ۳۱۲، الحدیث: ۳۵۳۹)
خوابوں کی تعبیر بتانے کے آداب:
یاد رہے کہ خواب کی تعبیر بیان کرنا نہ ہر شخص کا کا م ہے اور نہ ہی ہر عالم خواب کی تعبیر بیان کر سکتا ہے بلکہ خواب کی تعبیر بتانے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسے قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی خواب کی تعبیروں پر عبور ہو، الفاظ کے معانی، کنایا ت اور مجازات پر نظر ہو، خواب دیکھنے والے کے اَحوال اور معمولات سے واقفیت ہو اور خواب کی تعبیر بیان کرنے والا متقی و پرہیزگار ہو ۔موضوع کی مناسبت سے یہاں خواب کی تعبیر بیان کرنے کے 5آداب درج ذیل ہیں :
(1)…جب تعبیر بیان کرنے والے کے سامنے کوئی اپنا خواب بیان کر نے لگے تو وہ دعائیہ کلمات کے ساتھ اس سے کہے:جو خواب آپ نے دیکھا اس میں بھلائی ہو، آپ اپنا خواب بیان کریں۔
(2)…اچھے طریقے سے خواب سنے اور تعبیر بیان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔
(3)…خواب سن کر ا س میں غور کرے ،اگر خواب اچھا ہو تو خواب بیان کرنے والے کو خوشخبری دے کر اس کی تعبیر بیان کرے اور اگر برا ہو تو اس کے مختلف اِحتمالات میں جو سب سے اچھا احتمال ہو وہ بیان کرے اور اگر خواب کا اچھا یا برا ہونا دونوں برابر ہوں تو اصول کی روشنی میں جسے ترجیح ہو وہ بیان کرے اور اگر ترجیح دینا ممکن نہ ہو تو خواب بیان کرنے والے کا نام پوچھ کر اس کے مطابق تعبیر بیان کر دے اور خواب بیان کرنے والے کو تعبیر سمجھا دے۔
(4)…سورج طلوع ہوتے وقت، زوال کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت تعبیر بیان نہ کرے ۔
(5)…تعبیر بیان کرنے والے کو بتائے گئے خواب اس کے پاس امانت ہیں اس لئے وہ ان خوابوں کو کسی اور پر بلا ضرورت ظاہر نہ کرے۔
خواب کی تعبیر بیان کرنے والے مشہور علما اورتعبیر پر مشتمل کتابیں :
خوابوں کی تعبیر بیان کرنے میں مہارت رکھنے والے علما نے اس موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں ،ان میں سے ایک امام المعبرین حضرت امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب’’ تَفْسِیْرُ الْاَحْلَامِ الْکَبِیرْ‘‘ہے جو کہ’’ تعبیرُ الرُّؤیا‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور ایک کتاب علامہ عبد الغنی نابُلسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ہے جو کہ ’’تَعْبِیْرُ الْمَنَامْ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
خواب کی تعبیر سے متعلق نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معمول اور دو خوابوں کی تعبیریں:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں احادیثِ صحیحہ سے ثابت کہ حضورِ اقدس، سید عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ اسے (یعنی خواب کو) امرِ عظیم جانتے اور اس کے سننے، پوچھنے، بتانے، بیان فرمانے میں نہایت درجے کا اہتمام فرماتے ۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ صبح پڑھ کر حاضرین سے دریافت فرماتے: آج کی شب کسی نے کوئی خواب دیکھا؟ جس نے دیکھا ہوتا (وہ ) عرض کرتا (اور) حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس خواب کی ) تعبیر فرماتے ۔(بخاری، کتاب الجنائز، ۹۳-باب، ۱ / ۴۶۷، الحدیث: ۱۳۸۶)۔(فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۲۷۰-۲۷۱)
اسی سلسلے میں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ ا س کی سیرابی میرے ناخنوں سے بھی نکلنے لگی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دے دیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس سے کیا مراد لیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا (اس سے مراد) علم (ہے)۔(بخاری، کتاب التعبیر، باب اللبن، ۴ / ۴۱۱، الحدیث: ۷۰۰۶)
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے درمیان میں ایک ستون ہے جس کی چوٹی پر ایک حلقہ ہے، مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھو، میں نے کہا: مجھ میں اتنی طاقت نہیں ، پھر میرے پاس ایک ملازم آیا اور اس نے میرے کپڑے سنبھالے تو میں چڑھ گیا اور میں نے اُس حلقے کو پکڑ لیا، جب میں بیدار ہوا تو میں نے حلقہ پکڑ اہوا تھا، پھر میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ خواب بیان کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’وہ باغ تواسلام کا باغ ہے اور وہ ستون بھی اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے یعنی آخری وقت تک تم اسلام کو ہمیشہ پکڑے رہو گے۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب التعلیق بالعروۃ والحلقۃ، ۴ / ۴۱۳، الحدیث: ۷۰۱۴)