Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 36 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِؕ-قَالَ اَحَدُهُمَاۤ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَعْصِرُ خَمْرًاۚ-وَ قَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْهُؕ-نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِهٖۚ-اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(36)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ:اور یوسف کے ساتھ قیدخانے میں دو جوان بھی داخل ہوئے ۔} ان دو جوانوں میں سے ایک تو مصر کے شاہِ اعظم ولید بن نزدان عملیقی کے باورچی خانے کا انچارج تھا اور دوسرا اس کاساقی، ان دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینا چاہا اور اس جرم میں دونوں قید کر دئیے گئے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب قید خانے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے علم کا اظہار شروع کردیا اور فرمایا کہ میں خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتا ہوں۔ ان دو جوانوں میں سے جو بادشاہ کا ساقی تھا اس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک باغ میں ہوں اور وہاں ایک انگور کی بیل میں تین خوشے لگے ہوئے ہیں ، بادشاہ کا کاسہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ان انگوروں کا رس نچوڑ کر بادشاہ کو پلایا تو اس نے پی لیا۔ دوسرا یعنی کچن کا انچارج بولا ’’ میں نے خواب دیکھا کہ میں بادشاہ کے کچن میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرند ے کھا رہے ہیں۔ اے یوسف! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ دن میں روزہ دار رہتے ہیں ، ساری رات نماز میں گزارتے ہیں ، جب کوئی جیل میں بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کرتے ہیں اور اس کی خبر گیری رکھتے ہیں ، جب کسی پر تنگی ہوتی ہے تو اس کے لئے کشائش کی راہ نکالتے ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں تعبیر بتانے سے پہلے اپنے معجزے کا اظہار اور توحید کی دعوت شروع کردی اور یہ ظاہر فرما دیا کہ علم میں آپ کا درجہ اس سے زیادہ ہے جتنا وہ لوگ آپ کے بارے میں سمجھتے ہیں کیونکہ علمِ تعبیر ظن پر مبنی ہے اس لئے آپ نے چاہا کہ انہیں ظاہر فرما دیں کہ آپ غیب کی یقینی خبریں دینے پر قدرت رکھتے ہیں اور اس سے مخلوق عاجز ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے غیبی عُلوم عطا فرمائے ہوں اس کے نزدیک خواب کی تعبیر کیا بڑی بات ہے، اس وقت معجزے کا اظہار آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ جانتے تھے کہ ان دونوں میں ایک عنقریب سولی دیا جائے گا ،اس لئے آپ نے چاہا کہ اس کو کفر سے نکال کر اسلام میں داخل کریں اور جہنم سے بچا دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر عالم اپنی علمی منزلت کا اس لئے اظہار کرے کہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں تو یہ جائز ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۲۹-۵۳۰، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۹-۲۰، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳۸، ۴ / ۲۵۷، ۲۶۰، ملتقطاً)سُبْحَانَ اللہ! حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جیل کی تنگ وتکلیف دِہ زندگی میں بھی کس قدر پیارا اور دلنواز کردار ہے ۔ کاش کہ ہم عافیت کی زندگی میں ہی ایسے کردار کو اپنانے کی کوشش کرلیں۔
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے اَکابر اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی جہاں عافیت کی حالت میں دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے وہیں قیدو بند کی صعوبتوں میں بھی انہوں نے اپنے قول اور عمل کے ذریعے تبلیغِ دین کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا، جن میں ایک بہت بڑا اور عظیم نام سیدنا مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے ، جب اکبر بادشاہ نے ملحدین اور بے دینوں کے ذریعے ایک نیا دین یعنی دینِ اکبری ایجاد کیا تو حضرت مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ملک کے طُول وعَرض میں دینِ اکبری کے خلاف اور دینِ اسلام کے دفاع میں مکتوبات اور مریدین کی جماعت کے ذریعے اپنی تبلیغی کوششوں کو عام کر دیا پھر جب اکبر بادشاہ مر گیا اور اس کے بعد جہانگیر نے سلطنت کی زِمامِ کار سنبھالی تو اس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے بعد حضرت مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے دربار میں بلا یا اور تادیب کرنے ،تہذیب سکھانے اور دربارِ شاہی کی تعظیم نہ کرنے کو بہانا بنا کر انہیں قلعہ گوالیار میں قید کر دیا، لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے وہاں قیدیوں میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہزاروں کافر و مشرک قیدی مشرف باسلام ہو گئے ، اسی طرح قید خانے سے مکتوبات کے ذریعے اپنے اہل و عیال، مریدوں اور اہلِ محبت کو اَحکامِ اسلام پر عمل کی دعوت دیتے رہے، ان میں سے ایک خط مُلاحظہ ہو، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے صاجزادوں خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِماکے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں ’’فرزندانِ گرامی! مصیبت کا وقت اگرچہ تلخ و بے مزہ ہے لیکن اس میں فرصت میسر آ جائے تو غنیمت ہے، اس وقت تمہیں چونکہ فرصت میسر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور ایک لمحہ بھی فارغ نہ بیٹھو، تین باتوں میں سے ہر ایک کی پابندی ضرور ہونی چاہئے (1) قرآنِ پاک کی تلاوت۔ (2) لمبی قراء ت کے ساتھ نماز۔ (3) کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہْ‘‘ کی تکرار۔ کلمہ لَا کے ساتھ نفس کے خود ساختہ خداؤں کی نفی کریں ، اپنی مرادوں اور مقصدوں کی بھی نفی کریں ، اپنی مرادیں چاہنا (یعنی جو ہم چاہیں وہی ہوجائے گویا) خدائی کا دعویٰ کرنا ہے ا س لئے چاہئے کہ سینے میں کسی مراد کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ہوس کا خیال تک نہ آنے پائے تاکہ حیات کی حقیقت متحقق ہو۔ نفسانی خواہشات جو کہ جھوٹے خدا ہیں کو کلمہ’’ لَا‘‘ کے تحت لائیں تاکہ ان سب کی نفی ہو جائے اور تمہارے سینے میں کوئی مقصد و مراد باقی نہ رہے حتّٰی کہ میری رہائی کی آرزوبھی جو اس وقت تمہاری سب سے اہم آرزوؤں میں ہے، نہ ہونی چاہئے، تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل و مشیت پر راضی رہیں ، جہاں بیٹھے ہوئے ہیں اسے اپنا وطن سمجھیں۔ یہ چند روزہ زندگی جہاں بھی گزرے اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزرنی چاہئے۔ (مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، حصہ ہشتم، مکتوب دوم، ۲ / ۷-۸)
جیل میں تبلیغ کے حوالے سے ایک دوسرا واقعہ مُلا حظہ فرمائیں ،چنانچہ امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر نگہبانوں میں سے ایک شخص حسن بن قحطبہ نے امام اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: میرا کام آپ سے مخفی نہیں ہے ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے پر نادم ہو، اور جب تجھے کسی مسلمان کو قتل کرنے اور خود قتل ہونے میں اختیار دیا جائے تو تم اسے قتل کرنے پر اپنے قتل ہونے کو ترجیح دو اور اللہ تعالیٰ سے پختہ ارادہ کرو کہ آئندہ تم کسی مسلمان کو قتل نہیں کرو گے اور تم نے اس عہد کو پورا کر لیا تو سمجھ لینا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی ہے۔(مناقب الامام الاعظم للکردری، الفصل السادس فی وفاۃ الامام رضی اللہ عنہ، ص۲۲، الجزء الثانی)