banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 49 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ(48)ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِیْهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیْهِ یَعْصِرُوْنَ(49)

ترجمہ: کنزالایمان پھر اس کے بعد سات کرّے برس آئیں گے کہ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لیے پہلے جمع کر رکھاتھا مگر تھوڑا جو بچالو ۔ پھر ان کے بعد ایک برس آئے گا جس میں لوگوں کو مینھ دیا جائے گا اور اس میں رس نچوڑیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان پھر اس کے بعد سات برس سخت آئیں گے جو اس غلے کو کھا جائیں گے جو تم نے ان سالوں کے لیے پہلے جمع کر رکھا ہوگا مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم بچالو گے۔ پھر ان سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی اور اس میں رس نچوڑیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ:پھر اس کے بعد آئیں گے۔} یعنی ان سات سرسبز سالوں کے بعد لوگوں پر سات سال سخت قحط کے آئیں گے جن کی طرف دبلی گائیوں اور سوکھی بالیوں میں اشارہ ہے، جو غلہ وغیرہ تم نے ان سات سالوں کے لئے جمع کر رکھا ہو گا وہ سب ان سالوں میں کھا لیا جائے گا البتہ تھوڑا سا بچ جائے گا جو تم بیج کے لئے بچا لو گے تاکہ اس کے ذریعے کاشت کرو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۲۴، ملخصاً)

حفاظتی تدابیر کے طور پر کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں :

اس سے معلوم ہوا کہ حفاظتی تدابیر کے طور پر آئندہ کے لئے کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اناج اور دیگر ضروریات کے حوالے سے ملکی ذخائرکا جائزہ لیتے رہیں اور اس کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دیں بلکہ زرِ مبادلہ کے جو ذخائر جمع کر کے رکھے جاتے ہیں ان کی اصل بھی اس آیت سے نکالی جاسکتی ہے۔

اسی طرح کسی شخص کا ان لوگوں کے لئے کچھ بچا کر رکھنا جن کا نان نفقہ اس کے ذمے ہے ،یہ بھی توکل کے خلاف نہیں۔جیسا کہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے  ہیں ’’جہاں تک عیال دار کا تعلق ہے تو بال بچوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کرنے سے توکل کی تعریف سے نہیں نکلتا۔ (احیاءعلوم الدین ، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عیال کی کفایت (کفالت)شرع نے اس پر فرض کی، وہ ان کو توکل و تبتل و صبر علی الفاقہ پر مجبور نہیں کرسکتا، اپنی جان کو جتنا چاہے کُسے مگر اُن کو خالی چھوڑنا اس پر حرام ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’کَفٰی بِالْمَرْ ءِ اِثْمًا اَنْ یُضَیِّعَ مَنْ یَقُوْتُ‘‘ آدمی کے گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کا قُوت (یعنی نفقہ ) اس کے ذمہ ہے اُسے ضائع چھوڑ دے( ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی صلۃ الرحم، ۲ / ۱۸۴، الحدیث: ۱۶۹۲)(ت)۔(فتاوی رضویہ، ۱۰ / ۳۲۳)

            اسی مقام پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ذکر کردہ مزید کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور پر نور سَیِّدُ الْمُتَوَکِّلِینْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نفس کریم کے لیے کل کا کھانا بچا کر رکھنا پسند نہ فرماتے۔ ایک بار خادمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پرندے کا بچا ہوا گوشت دوسرے دن حاضر کیا تو ارشاد فرمایا ’’اَلَمْ اَنْہَکِ اَنْ تَرْفَعِی شَیْئًا لِغَدٍ اِنَّ اللہَ یَاْتِی بِرِزْقِ کُلِّ غَدٍ‘‘ کیا ہم نے منع نہ فرمایا کہ کل کے لیے کچھ ا ٹھاکرنہ رکھنا، کل کی روزی اللہ عَزَّوَجَلَّ کل دے گا۔(مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ نجیح ابو علی عن انس، ۳ / ۴۳۳، الحدیث: ۴۲۰۸)

            اور اپنے اہل و عیال کے معاملے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ آپ ان کے لئے سال بھر کاغلہ جمع فرما دیتے تھے چنانچہ امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اَموال اُن اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر لوٹادئیے تھے، مسلمانوں نے انہیں حاصل کرنے کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے تھے نہ اونٹ، یہ اموال خاص طور پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تصرف میں تھے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان اموال سے ایک سال کا خرچ نکال لیتے اور جو مال باقی بچتا اسے جہاد کی سواریوں اور ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرتے تھے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب حکم الفیئ، ص۹۶۴، الحدیث: ۴۸(۱۷۵۷))

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا دل یا آپ کے اہلِ خانہ کے دل کمزور تھے بلکہ ( آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ کام) امت کے کمزور لوگوں کے لئے سنت بنانے کی خاطر ایسا کیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس بات کی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جس طرح عزیمت (یعنی اصل حکم) پر عمل کیا جاتا ہے اسی طرح کمزور لوگوں کی دلجوئی کے لئے رخصت پر بھی عمل کیا جائے تاکہ ان کی کمزوری ان کو مایوسی تک نہ لے جائے اور وہ انتہائی درجہ تک پہنچنے سے عاجز ہونے کی وجہ سے آسان نیکی بھی چھوڑ دیں۔ (احیاء علوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳-۳۴۴)

{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ:پھر ان کے بعد ایک سال آئے گا۔} یعنی سخت قحط والے سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی، اس میں لوگ انگوروں کا رس نچوڑیں گے اور تل اور زیتون کا تیل نکالیں گے۔ مراد یہ ہے کہ یہ سال بڑی برکت والا ہوگا، زمین سرسبز وشاداب ہوگی اور درخت خوب پھلیں گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۲۴)