Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 53 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(53)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ:اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا۔} زلیخا کے اقرار اور اعتراف کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب یہ فرمایا کہ میں نے اپنی براء ت کا اظہار اس لئے چاہا تھا تاکہ عزیز کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں خیانت نہیں کی اور اس کے اہلِ خانہ کی حرمت خراب کرنے سے بچا رہا ہوں اور جو الزام مجھ پر لگائے گئے ہیں میں اُن سے پاک ہوں تو اس کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خیال مبارک اس طرف گیا کہ میری ان باتوں میں اپنی طرف پاکی کی نسبت اور اپنی نیکی کا بیان ہے، ایسا نہ ہو کہ اس میں کسی قسم کی خودپسندی کا شائبہ آنے کی کوشش کرے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ’’اے میرے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں اپنے نفس کو بے قصور بتاتا ہوں نہ مجھے اپنی بے گناہی پر ناز ہے اور نہ میں گناہ سے بچنے کو اپنے نفس کی خوبی قرار دیتا ہوں ،نفس کی جنس کا تویہ حال ہے کہ وہ برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے، لیکن میرا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے جس مخصوص بندے کو اپنے فضل وکرم سے معصوم کردے تو اس کا برائیوں سے بچنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے اور معصوم کرنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہے،بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں کے گناہوں کوبخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۵۳۴، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۵-۲۶، ملتقطاً)
نیک اعمال پر نازاں نہیں ہونا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بندہ اپنے نیک اعمال پر نازاں نہ ہو بلکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر اداکرے کہ اس نے اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی اور بے بسی کااظہار کرے اور گناہوں سے بچنے کو اپنا ہنر و کمال سمجھنے کی بجائے یہ سمجھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے اسے گناہ سے بچا لیا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے اعمال پر ناز کرنا اور خود پسندی میں مبتلا ہونا بہت ساری آفات کا مجموعہ ہے ،ان آفات کو بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’خود پسندی گناہوں کو بھول جانے اور نظر انداز کرنے کی دعوت دیتی ہے، چنانچہ وہ بعض گناہوں کو بالکل ہی بھول جاتا ہے کیوں کہ وہ ان کی تلاش سے بے نیاز ہوجاتا ہے لہٰذا وہ بھلا دیئے جاتے ہیں اور جن گناہوں کو یاد رکھتا ہے ان کو بھی معمولی جانتا ہے اور انہیں کوئی اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ان کے تَدارُک کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بخش دیئے جائیں گے جبکہ اس کے برعکس عبادات اور اعمالِ صالحہ کو بہت بڑا سمجھتا، ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اللّٰہ تعالیٰ پرایک قسم کا احسان جانتا ہے اور توفیقِ عمل کی صورت میں ملنے والی نعمت ِخداوندی کو بھول جاتا ہے، پھر جب خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی آفات سے اندھا ہوجاتا ہے اور جو آدمی اعمال کی آفات سے غافل ہوتا ہے اس کی زیادہ محنت ضائع ہوجاتی ہے کیوں کہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور آمیزش سے پاک نہ ہوں ، نفع بخش نہیں ہوتے اور آفات کی جستجو وہ آدمی کرتا ہے جس پر خود پسندی کی بجائے خوف غالب ہوتا ہے اور خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا ہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور اس کے عذاب سے بے خوف ہوتا ہے اور اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ایک مقام حاصل ہے ، نیز وہ اپنے اعمال کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ پر احسان جتاتا ہے حالانکہ یہ اعمال کی توفیق ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کے عطیات میں سے ایک عطیہ ہے لیکن خود پسندی کی وجہ سے وہ اپنی ذات کی تعریف کرتا اور اس کی پاکیزگی ظاہر کرتا ہے اور جب وہ اپنی رائے ،عمل اور عقل پر اتراتا ہے تو فائدہ حاصل کرنے، مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا ہے اور یوں اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر بھروسہ کرتا ہے، وہ کسی بڑے عالم سے پوچھنا اچھا نہیں سمجھتا اور بعض اوقات اپنی غلط رائے پر اتراتا ہے جو اس کے دل میں گزرتی ہے اور اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کے دل میں یہ خیال آیا اور دوسرے کی آراء کو پسند نہیں کرتا اسی لیے اپنی رائے پر اِصرارکرتا ہے، کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت نہیں سنتا اور نہ ہی کسی واعظ کا وعظ سنتا ہے بلکہ دوسروں کو یوں دیکھتا ہے کہ گویا وہ جاہل ہیں اور اپنی خطا پر ڈٹ جاتا ہے اگر اس کی رائے کسی دنیوی معاملے میں ہو تو اسے اس پر یقین ہوتا ہے اور اگر اُخروی معاملے بالخصوص عقائد سے متعلق ہو تو اس کے باعث تباہ ہوجاتا ہے جبکہ اگرایسا شخص اپنے نفس پر تہمت لگاتا ، اپنی رائے پر اعتماد نہ کرتا، نورِ قرآن سے روشنی حاصل کرتا ، علماءِ دین سے مدد لیتا، علم کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتا اور اہلِ بصیرت سے مسلسل پوچھتا رہتا تو یہ بات اسے حق تک پہنچادیتی۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان آفۃ العجب، ۳ / ۴۵۳)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں خود پسندی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔