Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 54 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْۚ-فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ(54)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الْمَلِكُ:اور بادشاہ نے کہا۔} جب بادشاہ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم اورآپ کی امانت کا حال معلوم ہوا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسنِ صبر، حسنِ ادب ،قید خانے والوں کے ساتھ احسان ،مشقتوں اور تکلیفوں پر ثابت قدمی اور اِستقلا ل رکھنے پر مُطلع ہوا تواس کے دل میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں بہت ہی عظمت پیدا ہوئی اور اس نے کہا: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں اپنے لیے منتخب کرلوں ، چنانچہ بادشاہ نے معززین کی ایک جماعت بہترین سواریاں ،شاہانہ سازو سامان اورنفیس لباس دے کر قیدخانے میں بھیجی تاکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو انتہائی تعظیم اورتکریم کے ساتھ ایوانِ شاہی میں لائیں ۔ان لوگوں نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہو کر بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قبول فرمالیا اور قید خانہ سے نکلتے وقت قیدیوں کے لئے دعا فرمائی۔ جب قید خانے سے باہر تشریف لائے تو اس کے دروازے پر لکھا ’’یہ بلا کا گھر، زندوں کی قبر ، دشمنوں کی بدگوئی اور سچوں کے امتحان کی جگہ ہے۔ پھر غسل فرمایا اور پوشاک پہن کر ایوانِ شاہی کی طرف روانہ ہوئے ،جب قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا ’’میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے کافی ہے، اس کی پناہ بڑی اور اس کی ثنا برتر اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر قلعہ میں داخل ہوئے اور جب بادشاہ کے سامنے پہنچے تو یہ دعا کی کہ’’ یارب! عَزَّوَجَلَّ،میں تیرے فضل سے بادشاہ کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور اس کی اور دوسروں کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ جب بادشاہ سے نظر ملی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عربی میں سلام فرمایا۔بادشاہ نے دریافت کیا ’’یہ کون سی زبان ہے ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’یہ میرے چچا حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان ہے۔ پھر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ کے سامنے عبرانی زبان میں دعا کی تواُس نے دریافت کیا’’یہ کون سی زبان ہے؟حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’یہ میرے والدِ محترم کی زبان ہے۔ بادشاہ یہ دونوں زبانیں نہ سمجھ سکاحالانکہ وہ 70 زبانیں جانتا تھا ،پھر اُس نے جس زبان میں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے گفتگو کی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُسی زبان میں بادشاہ کو جواب دیا۔ اُس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف تیس سال کی تھی، اس عمر میں علوم کی ایسی وسعت دیکھ کر بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی اور اُس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے برابر جگہ دی۔ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے خواب کی تعبیر اپنی زبانِ مبارک سے سنائیں ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس خواب کی پوری تفصیل بھی سنادی کہ اس اس طرح سے اس نے خواب دیکھا تھا حالانکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ خواب اس سے پہلے تفصیل سے بیان نہ کیا گیا تھا۔ اس پر بادشاہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ کہنے لگا ’’آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تو میرا خواب جیسے میں نے دیکھا تھا ویسے ہی بیان فرما دیا ،خواب کا عجیب ہونا تو اپنی جگہ لیکن آپ کا اس طرح بیان فرما دینا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے، اب اس خواب کی تعبیر بھی ارشاد فرما دیں ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تعبیر بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا ’’اب لازم یہ ہے کہ غلّے جمع کئے جائیں اور ان فراخی کے سالوں میں کثرت سے کاشت کرائی جائے اور غلّےبالیوں کے ساتھ محفوظ رکھے جائیں اور رعایا کی پیداوار میں سے خُمس لیا جائے، اس سے جو جمع ہوگا وہ مصر اور ا س کے اَطراف کے باشندوں کے لئے کافی ہوگا اورپھر خلقِ خدا ہر طرف سے تیرے پاس غلہ خریدنے آئے گی اور تیرے یہاں اتنے خزانے اور مال جمع ہو جائیں گے جو تجھ سے پہلوں کے لئے جمع نہ ہوئے ۔ بادشاہ نے کہا یہ انتظام کون کرے گا؟(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۲۶-۲۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۵۳۴-۵۳۵، ملتقطاً)حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ کے ا س سوال کا جو جواب دیا وہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔