Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 55 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک میں خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔
عہدہ اور امارت کا مطالبہ کب جائز ہے؟
یاد رہے کہ احادیث میں مذکور مسائل میں جو امارت یعنی حکومت یا بڑا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت آئی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جب ملک میں اہلیت رکھنے والے موجود ہوں اور اللّٰہ تعالیٰ کے اَحکام نافذ کرناکسی ایک شخص کے ساتھ خاص نہ ہو تو اس وقت امارت طلب کرنا مکروہ ہے لیکن جب ایک ہی شخص اہلیت رکھتا ہو تو اس کو اللّٰہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرنے کے لئے امارت طلب کرنا جائز بلکہ اسے تاکید ہے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہی حال تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رسول تھے، اُمت کی ضروریات سے واقف تھے ،یہ جانتے تھے کہ شدید قحط ہونے والا ہے جس میں مخلوق کو راحت اور آسائش پہنچانے کی یہی صورت ہے کہ عنانِ حکومت کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہاتھ میں لیں اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے امارت طلب فرمائی ۔
امارت سے متعلق 3 اَہم مسائل:
یہاں امارت سے متعلق 3 اَہم مسائل یاد رکھئے:
(1)… عدل قائم کرنے کی نیت سے ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدے قبول کرنا جائز ہے۔
(2)…اگر دین کے احکام کو جاری کرنا کافر یا فاسق بادشاہ کی طرف سے عہدہ لئے بغیر نہ ہو سکے گاتو اس میں اس سے مدد لینا جائز ہے۔
(3)…فخر اور تکبر کے لئے ـاپنی خوبیوں کو بیان کرنا ناجائز ہے لیکن دوسروں کو نفع پہنچانے یا مخلوق کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے اگر اپنی خوبیوں کے اظہار کی ضرورت پیش آئے تو ممنوع نہیں اسی لئے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا کہ میں حفاظت و علم والا ہوں ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۲۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۵۳۵، ملتقطاً)
عہدہ قبول نہ کرنے میں عافیت کی صورت:
یاد رہے کہ عدل قائم کرنے کی نیت سے ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدے کو قبول کرنا جائز ہے اور اگر عہدہ ملنے کے باوجود عدل قائم کر سکنا ممکن نہ ہو تو ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدہ قبول نہ کرنے میں ہی عافیت ہے اور یہی ہمارے بزرگانِ دین کا طرزِ عمل رہا ہے، چنانچہ حضرت ربیع بن عاصم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’یزید بن عمر امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بیتُ المال کا نگران مقرر کرنا چاہتا تھا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے انکار کر دیا تو اس نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بیس کوڑے مارے۔‘‘اسی طرح آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی امانت داری کی وجہ سے بادشاہ نے اپنے خزانے کی چابیاں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حوالے کرنے کاارادہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر انکار کیا تو وہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب پر بادشاہ کی سزا کو ترجیح دی (اور خزانے کی چابیاں نہ لیں ) اسی طرح ایک مرتبہ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قاضی بننے کی دعوت دی گئی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’میں اس کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا ’’اگر میں سچا ہوں تو واقعی اس کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اگر جھوٹا ہوں تو جھوٹا شخص بھی قاضی بننے کاا ہل نہیں ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الثانی فی العلم المحمود والمذموم۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸-۴۹)