banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 62 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

وَ قَالَ لِفِتْیٰنِهِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ فِیْ رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُوْنَهَاۤ اِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤى اَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(62)

ترجمہ: کنزالایمان اور یوسف نے اپنے غلاموں سے کہا ان کی پونجی ان کی خرجیوں میں رکھ دو شاید وہ اسے پہچانیں جب اپنے گھر کی طرف لوٹ کر جائیں شاید وہ واپس آئیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور یوسف نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ان کی رقم (بھی) ان کی بوریوں میں واپس رکھ دو تاکہ جب یہ اپنے گھر واپس لوٹ کر جائیں تو اسے پہچان لیں تاکہ یہ واپس آئیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ لِفِتْیٰنِهِ:اور اپنے غلاموں  سے فرمایا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے غلاموں  سے فرمایا کہ ان لوگوں  نے غلے کی جو قیمت دی ہے ، غلے کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی ان کی بوریوں  میں  واپس رکھ دو تاکہ جب وہ اپنا سامان کھولیں  تو اپنی جمع شدہ رقم انہیں  مل جائے اور قحط کے زمانے میں  کام آئے ،نیز یہ رقم پوشیدہ طور پر اُن کے پاس پہنچے تاکہ اُنہیں  لینے میں  شرم بھی نہ آئے اور یہ کرم و احسان دوبارہ آنے کے لئے اُن کی رغبت کا باعث بھی ہو۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۳۰، ملخصاً)

ضرورت کے وقت رشتہ داروں  کی مدد کرنے کی ترغیب:

اس سے معلوم ہوا کہ جب رشتہ داروں  کو کسی چیز کی حاجت اور ضرورت ہو تواس میں  ان کی مدد کرنی چاہئے ، قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں باقاعدہ اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے ،چنانچہ رشتہ داروں  کو دینے سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(نحل:۹۰)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان اور رشتےداروں  کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں  نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو دینار تو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرے اور جو دینار تو (غلام کی) گردن آزاد کرنے میں  خرچ کرے اور جو دینار تو کسی مسکین پر صدقہ کرے اور جو دینار تو اپنے گھر والوں  پر خرچ کرے ان سب میں  زیادہ ثواب اس کا ہے جو تو اپنے گھر والوں  پر خرچ کرے ۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک۔۔۔ الخ، ص۴۹۹، الحدیث: ۳۹(۹۹۵))

حضرت سلمان بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عام مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے رشتہ دار پر کرنا دو صدقے ہیں  ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔(ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ، ۲ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۵۸)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے اُمتِ محمد! قسم ہے اُس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اللّٰہ تعالیٰ اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں  فرماتا، جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں  اور یہ غیروں  کو دے، قسم ہے اُس کی جس کے دستِ قدرت میں  میری جان ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ مقدام، ۶ / ۲۹۶، الحدیث: ۸۸۲۸)

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  ضرورت مند رشتہ داروں  کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

رشتہ داروں  کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ :

اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ کسی رشتہ دار کی مالی یا کوئی اور مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس انداز میں  اس تک رقم یا کوئی اور چیز پہنچائی جائے جس میں  اسے لیتے ہوئے شرم بھی محسوس نہ ہو اور اس کی غیرت و خودداری پربھی کوئی حرف نہ آئے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سات شخص ہیں ، جن پر اللّٰہ تعالیٰ اس دن سایہ کرے گا جس دن اُس کے (عرش کے) سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں  سے ایک) وہ شخص ہے جس نے کچھ صدقہ کیا اور اسے اتنا چھپایا کہ بائیں  کو بھی خبر نہ ہوئی کہ دائیں  نے کیا خرچ کیا۔( بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۶۰)

حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اپنے شاگرد پر خفیہ احسان:

ہمارے بزرگانِ دین اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں  کی امداد کس طرح کیا کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اکثر ’’طَرَسُوْس‘‘ کی طرف جاتے اور وہاں  ایک مسافر خانے میں  ٹھہرتے، ایک نوجوان آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں  حاضر ہو کر حدیث سنا کرتا، جب بھی آپ ’’رِقَّہ‘‘(نامی شہر میں) تشریف لاتے تووہ نوجوان حاضرِ خدمت ہوجاتا ۔ ایک مرتبہ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ’’رِقَّہ‘‘ پہنچے تو اس نوجوان کو نہ پایا۔ اس وقت آپ جلدی میں  تھے کیونکہ مسلمانوں  کا ایک لشکر جہاد کے لئے گیا ہوا تھا اور آپ بھی اس میں  شرکت کے لئے آئے تھے۔ چنانچہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (اس کی معلومات کرنے کی بجائے) لشکرمیں  شامل ہوگئے ۔اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں  کو فتح نصیب ہوئی اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ غازی بن کر واپس طَرَسُوْس آئے اور ’’رِقَّہ‘‘ پہنچ کر اپنے اس نوجوان شاگرد کے بارے میں  پوچھا تو پتا چلا کہ نوجوان مقروض تھا اور ا س کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ وہ قرض ادا کرتا لہٰذا قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا: ’’میرے اس نوجوان شاگرد پر کتنا قرض تھا ؟کہا گیا کہ’’دس ہزار درہم۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پوچھتے پوچھتے قرض خواہ کے گھر پہنچے ، اسے دس ہزار درہم دے کراپنے شاگرد کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا ’’جب تک میں  زندہ رہوں  اس وقت تک کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ دینا ۔ پھر راتوں  رات آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وہاں  سے رخصت ہوگئے ۔قرض خواہ نے صبح ہوتے ہی مقروض نوجوان کو رہا کر دیا۔ نوجوان جب باہر آیا تو لوگو ں  نے اس سے کہا: حضر ت عبداللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے متعلق پوچھ رہے تھے ، اور اب وہ واپس جاچکے ہیں۔ یہ سن کر نوجوان آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلاش میں  نکل پڑا اور تین دن کی مسافت طے کرکے آپ   کے پاس پہنچا ۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے دیکھا تو پوچھا:’’اے نوجوان ! تم کہاں  تھے؟میں نے تمہیں  مسافرخانے میں  نہیں  پایا۔ نوجوان نے کہا: ’’اے ابو عبد الرحمٰن! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ،مجھے قرض کے عوض قید کرلیا گیا تھا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا ’’پھر تمہاری رہائی کا کیا سبب بنا؟ نوجوان نے عرض کی :اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے کسی نیک بندے نے میرا قرض ادا کردیا، اس طرح مجھے رہائی مل گئی۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ’’اے نوجوان ! اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے کسی کو تیرا قرض ادا کرنے کی توفیق دی اور تجھے رہائی عطا فرمائی ۔راوی کہتے ہیں : جب تک حضرت عبد اللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ زندہ رہے تب تک اس قرض خواہ نے کسی کو بھی خبر نہ دی کہ نوجوان کاقرض کس نے ادا کیا ، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وصال کے بعداس نے سارا واقعہ لوگوں  کو بتا دیا۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الرابعۃ والسبعون بعد المائتین، ص۲۵۴-۲۵۵)