banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 72 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

قَالُوْا وَ اَقْبَلُوْا عَلَیْهِمْ مَّا ذَا تَفْقِدُوْنَ(71)قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَ لِمَنْ جَآءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ(72)

ترجمہ: کنزالایمان بولے اور ان کی طرف متوجہ ہوئے تم کیا نہیں پاتے۔ بولے بادشاہ کا پیمانہ نہیں ملتا اور جو اسے لائے گا اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ ہے اور میں اس کا ضامن ہوں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان انہوں نے پکارنے والوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا: کیاچیز تمہیں نہیں مل رہی؟ ندا کرنے والوں نے کہا: ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں مل رہا اور جو اُسے لائے گا اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ:نداکرنے والوں  نے کہا: ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں  مل رہا۔} ندا کرنے والوں  نے انہیں  جواب دیا کہ ہمیں  بادشاہ کا پیمانہ نہیں  مل رہا اور جو ہمارے تلاشی لینے سے پہلے ہی اسے ظاہر کر دے گا یا اسے چوری کرنے والے کے بارے میں  ہمیں  بتائے گا تواس کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ انعام ہے اور اسے دلانے کا میں  ضامن ہوں ۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۹۹)

کفالت جائز ہے:

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ کفالت جائز ہے ،حدیث پاک سے بھی اس کا جواز ثابت ہے، جیسا کہ حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کفیل بننے والاقرضدار ہے ۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء انّ العاریۃ مؤدّاۃ، ۳ / ۳۴، الحدیث: ۱۲۶۹) نیز اس کے جائز ہونے پر اِجماع بھی منعقد ہے۔

کفالت کا معنی:

            شریعت کی اصطلاح میں  کفالت کے معنی یہ ہیں  کہ ایک شخص اپنے ذمہ کو دوسرے کے ذمہ کے ساتھ مطالبہ میں  ضَم کر دے( یعنی مطالبہ ایک شخص کے ذمہ تھا اور دوسر ے نے بھی مطالبہ اپنے ذمہ لے لیا ۔) (ردّ المحتار مع الدرّالمختار، کتاب ا لکفالۃ،  ۷ / ۵۸۹)

          مشورہ: کفالت کے مسائل کی تفصیلی معلومات کیلئے بہار شریعت حصہ 12 سے  ’’کفالت کا بیان‘‘کا مطالعہ کیجئے۔

ضمانت دینے کی ترغیب:

            ہمیں  بھی چاہئے کہ اگر کوئی مسلمان بھائی قرض یا کسی اور مصیبت میں  گرفتار ہو تو ممکنہ بہتر صورت میں  اس کی ضمانت دے کر اس کی مصیبت دور کرنے کی کوشش کریں  اس سلسلے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت سے ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔

            حضرت عبداللّٰہ بن ابو قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  ایک شخص کو لایا گیا تاکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں  توحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم خود ا س کی نماز جنازہ پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے۔ حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: وہ قرض (ادا کرنا) میرے ذمے ہے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے دریافت فرمایا ’’تم وہ قرض ادا کرو گے؟ انہوں  نے عرض کی:میں  وہ قرض پورا ادا کروں  گا، تب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھا دی۔( ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلاۃ علی المدیون، ۲ / ۳۳۶، الحدیث: ۱۰۷۱)