banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 77 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

قَالُـوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُۚ-فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَ لَمْ یُبْدِهَا لَهُمْۚ-قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًاۚ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ(77)

ترجمہ: کنزالایمان بھائی بولے اگر یہ چوری کرے تو بے شک اس سے پہلے ایک بھائی چوری کرچکا ہے تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں رکھی اور ان پر ظاہر نہ کی جی میں کہا تم بدتر جگہ ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو باتیں بناتے ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان بھائیوں نے کہا: اگراس نے چوری کی ہے تو بیشک اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں چھپارکھی اور ان پر ظاہر نہ کی (اور دل میں ) کہا تم انتہائی گھٹیا درجے کے آدمی ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم باتیں کررہے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:بھائیوں  نے کہا۔} جب پیالہ بنیامین کے سامان سے نکلا تو بھائی شرمندہ ہوئے ، اُنہوں  نے سرجھکائے اور کہا ’’ سامان میں  پیالہ نکلنے سے سامان والے کا چوری کرنا تو یقینی نہیں  لیکن اگر یہ فعل اس کا ہو تو بیشک اس سے پہلے اس کےبھائی  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی چوری کی تھی۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب ایک واقعہ:

            جس کو انہوں  نے چوری قرار دے کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب کیا وہ واقعہ یہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نانا کا ایک بت تھا جسے وہ پوجتے تھے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چپکے سے وہ بت لیا اور توڑ کر راستے میں  نجاست کے اندر ڈال دیا۔ یہ حقیقت میں  چوری نہ تھی بلکہ بت پرستی کا مٹانا تھا۔ بھائیوں  کا اس کے ذکر سے یہ مقصد تھا کہ ہم لو گ بنیامین کے سوتیلے بھائی ہیں  اور یہ فعل ہو تو شاید بنیامین کا ہو ،نہ ہماری اس میں  شرکت نہ ہمیں  اس کی اطلاع۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۳۰۱، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۳۶، ملتقطاً)

{فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ:تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں  چھپارکھی۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائیوں  کی طرف سے اپنے بارے میں  کہی گئی بات دل میں  ایسے چھپا لی جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سنی ہی نہ ہو اور اپنے قول یا فعل سے کسی طرح اس کا اظہار نہ ہونے دیا اور اپنے دل میں  کہا ’’تم حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی کے مقابلے میں  انتہائی کم درجے کے آدمی ہو کیونکہ تم نے اپنے بھائی کو اپنے والد سے چرا لیا اور اپنے بھائی پر ظلم کیا، تم اپنے بھائی کے معاملے میں  جو کچھ کہہ رہے ہو اسے اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۳۰۱-۳۰۲، جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۱۹۶، ملتقطاً)