Home ≫ ur ≫ Surah Al Yusuf ≫ ayat 76 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْهِؕ-كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَؕ-مَا كَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاهُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِكِ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُؕ-وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(76)
تفسیر: صراط الجنان
{فَبَدَاَ:تو تلاشی لینا شروع کی۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی بنیامین کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے دوسروں کے سامان کی تلاشی لینا شروع کی، تلاشی لیتے ہوئے جب بنیامین کے سامان تک پہنچے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میرا گمان ہے کہ پیالہ اس کے ہی سامان میں ہو گا۔ بھائیوں نے کہا: خدا کی قسم ! ہم اسے نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ا س کے سامان کی تلاشی نہ لے لیں ، اسی میں آپ کے لئے اور ہمارے لئے بہتری ہے۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیا مین کے سامان کی تلاشی لی توپیالے کو اس کے سامان سے برآمد کر لیا ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۳۹-۵۴۰)
شرعی حیلے درست ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ شرعی حیلے درست ہیں کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کو روکنے کا ایک حیلہ ہی اختیار فرمایا اور یہ بالکل جائز حیلہ تھا کسی پر ظلم نہ تھا۔
{كَذٰلِكَ:اسی طرح۔} یعنی اپنے بھائی کو لینے کی ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہی تدبیر بتائی تھی کہ اس معاملہ میں بھائیوں سے اِستفسار کریں تاکہ وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کا حکم بتائیں جس سے بھائی مل سکے۔ بادشاہی قانون میں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے درست نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو لے لیں کیونکہ بادشاہِ مصر کے قانون میں چوری کی سزا مارنا اور دگنا مال لے لینا مقرر تھی۔ یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت سے ہوئی کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں ڈال دیا کہ سز ابھائیوں سے دریافت کریں اور بھائیوں کے دل میں ڈال دیا کہ وہ اپنی سنت اور طریقے کے مطابق جواب دیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۵)
{وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ: اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی علماء تھے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سے زیادہ علم والے تھے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۶)خیال رہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس حیلہ میں نہ تو جھوٹ بولا کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خادم نے کہا تھا کہ تم چور ہو اور خادم بے خبر تھا، نہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائی پر چوری کا بہتان لگایا، بلکہ جو کچھ کیا گیا خود بنیامین کے مشورہ سے کیا گیا، اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی تعریف فرمائی اور فرمایا’’ كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَ‘‘ یہ تدبیر یوسف کو ہم نے سکھائی۔
ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے:
یاد رہے کہ مخلوق میں ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہونے کے سلسلے کی اِنتہا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہے اور ان سے بے انتہا زیادہ خالق و مالک کا علم ہے ،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں کہ ہر عالِم کے اُوپر اس سے زیادہ علم رکھنے والا عالم ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور اس کا علم سب کے علم سے برتر ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۶)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’علم کے مدارج بے حد متفاوت ،’’ وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘عالَمِ امکان میں نہایت ِنہایات حضور سید الکائنات عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلَواتِ وَالتَّحِیَّات۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۶۱۹) یعنی لوگوں کے علم کے درجات میں بے حد فرق ہے کیونکہ ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے اوراس کائنات میں سب کے علم کی انتہا کائنات کے سردار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’بلاشبہ غیرِخدا کا علم معلوماتِ الٰہیہ کو حاوی نہیں ہوسکتا، مساوی درکنار تمام اولین و آخرین و انبیاء و مرسلین و ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الٰہیہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصے کو، کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ دونوں متناہی ہیں ، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے بخلاف علومِ الٰہیہ کہ (وہ) غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں ۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، شرق و غرب و جملہ کائنات از روزِ اول تا روزِآخر کو محیط ہوجائیں آخر متناہی ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں ، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب متناہی ہے۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، ۲۹ / ۴۵۰)