banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 82 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

اِرْجِعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْكُمْ فَقُوْلُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّ ابْنَكَ سَرَقَۚ-وَ مَا شَهِدْنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَ مَا كُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ(81)وَ سْــٴَـلِ الْقَرْیَةَ الَّتِیْ كُنَّا فِیْهَا وَ الْعِیْرَ الَّتِیْۤ اَقْبَلْنَا فِیْهَاؕ-وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالایمان اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ پھر عرض کرو اے ہمارے باپ بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی اور ہم تو اتنی ہی بات کے گواہ ہوئے تھے جتنی ہمارے علم میں تھی اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے۔ اور اس بستی سے پوچھ دیکھئے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے جس میں ہم آئے اور ہم بے شک سچے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان تم اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ پھر عرض کرو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہم اتنی ہی بات کے گواہ ہیں جتنی ہمیں معلوم ہے اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے۔ اور اس شہر والوں سے پوچھ لیجیے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے (معلوم کرلیں ) جس میں ہم واپس آئے ہیں اور بیشک ہم سچے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِرْجِعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْكُمْ:تم اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ۔} جس بھائی نے مصر میں  ہی ٹھہرنے کا عزم کیا تھا ا س نے بقیہ بھائیوں  سے کہا کہ تم اپنے والدحضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لوٹ کر جاؤ اور ان سے عرض کرو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کی طرف چوری کی نسبت کی گئی  اور ہم اتنی ہی بات کے گواہ ہیں  جتنی ہمیں  معلوم ہے کہ پیالہ اُن کے کجاوے میں  سے نکلا  اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے اور ہمیں  خبر نہ تھی کہ یہ صورت پیش آئے گی، حقیقتِ حال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  ہی جانے کہ کیا ہے اور پیالہ کس طرح بنیامین کے ساما ن سے برآمد ہوا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۳۷-۳۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۵۴۱، ملتقطاً)

{وَ سْــٴَـلِ الْقَرْیَةَ:اور شہر والوں  سے پوچھ لیجیے۔} بھائیوں  کو یہ باتیں  والد صاحب سے کہنے کا حکم دینے سے ا س کا مقصد یہ تھا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے ان بھائیوں  پر سے تہمت اچھی طرح زائل ہو جائے کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں  یہ تہمت کا سامنا کر چکے تھے۔ پھر یہ لوگ اپنے والد کے پاس واپس آئے اور سفر میں  جو کچھ پیش آیا تھا اس کی خبر دی اور بڑے بھائی نے جو کچھ بتادیا تھا وہ سب والد صاحب سے عرض کر دیا۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۳۸)