Home ≫ ur ≫ Surah Alam Nashrah ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ(7)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِذَا فَرَغْتَ
فَانْصَبْ: تو جب تم فارغ ہو تو
خوب کوشش کرو۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ نماز سے فارغ ہو
جائیں تو آخرت کے لئے دعا کرنے میں محنت کریں کیونکہ نماز کے
بعد دعا مقبول ہوتی ہے۔ اس آیت میں مذکور دعا کے بارے میں اختلاف ہے
کہ اس سے کونسی دعا مراد ہے، بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ دعا مراد ہے جو نماز کے
آخر میں نماز کے اندر مانگی جاتی ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ دعا
مراد ہے جو سلام پھیرنے کے بعد مانگی جاتی ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،
جب آپ مخلوق کو دین کی دعوت دینے سے فارغ ہو جائیں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے میں
مشغول ہو جائیں۔(مدارک، الشرح، تحت
الآیۃ: ۷،
ص ۱۳۵۹،
ملخصاً)
آیت’’ فَاِذَا فَرَغْتَ
فَانْصَبْ‘‘ سے حاصل ہونے والی
معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)… نماز کے بعد خاص طور
پر اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے
کہ اللّٰہ تعالیٰ نماز کے بعدکی گئی
دعائیں قبول فرماتا ہے۔
(2)… بندے کو فارغ نہیں
رہنا چاہئے اور نہ ہی کسی ایسے کام میں مشغول ہونا چاہئے جس کا کوئی
دینی یا دُنْیَوی فائدہ نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول
ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’انسان کے اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ا س چیز کو
چھوڑ دے جو اسے فائدہ نہ دے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴)
(3)… جو خطیب،واعظ اور
مُبَلِّغ حضرات رات گئے تک مَحافل اور اجتماعات میں عوامُ النّاس کے سامنے
خطاب، تقریر اور بیان کرتے ہیں ،انہیں بھی چاہئے کہ وہ اس کام سے فارغ ہونے
کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی
کوشش کریں ۔ لیکن افسوس کہ فی زمانہ ایسے حضرات کی ایک تعداد ایسی ہے کہ جو آدھی
رات بلکہ ا س سے بعد تک بھی محافل اور اجتماعات میں اپنے خطاب ،تقریر اور
بیان کرنے کے معاملے میں تو انتہائی چست نظر آتے ہیں اور ان کے خطاب
میں جوش اور ولولہ نمایا ں نظر آتا ہے،جماعت چھوڑنے،نماز قضا کرنے یا بالکل
ہی نہ پڑھنے کی سزاؤں پر مشتمل آیات و اَحادیث رورو کر سنا رہے ہوتے ہیں
لیکن اس سے فارغ ہونے کے بعد نماز کے معاملے میں ان کی اپنی سستی کا
یہ حال ہوتا ہے کہ وہ فجر کی نماز جماعت کے بغیر یا قضا کر کے پڑھتے ہیں اور
دیگر نمازوں کی ادائیگی میں بھی انتہائی سستی سے کام لیتے ہیں ۔ایسے
حضرات کو چاہئے کہ ان آیات اور اَحادیث کو پڑھ کر اپنی عملی حالت اور ا س کی جزاء
کے بارے میں خود ہی غور کر لیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ
تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا
تَفْعَلُوْنَ‘‘(صف:۲ ،۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو ! وہ بات
کیوں کہتے ہوجو کرتے نہیں ۔اللّٰہ کے نزدیک یہ بڑی
سخت ناپسند یدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ اَتَاْمُرُوْنَ
النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ
الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(بقرہ:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم لوگوں کو
بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا
تمہیں عقل نہیں ۔
اورحضرت اسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت
کے دن ایک شخص کولایاجائے گا،پھراس کودوزخ میں ڈال دیاجائے گا یہاں تک
کہ اس کی انتڑیاں دوزخ میں بکھرجائیں گی اوروہ اس طرح گرد ش
کررہاہوگاجس طرح چکی کے گردگدھاگردش کرتاہے۔جہنمی اس کے گرد جمع ہوکراس سے کہیں
گے :اے فلاں !کیابات ہے تم توہم کونیکی کی دعوت دیتے اوربرائی سے منع کرتے
تھے(اور تم یہاں عذاب
میں مبتلاء ہو)!
وہ کہے گا:میں تم کونیکی کی دعوت دیتاتھااورخود نیک کام نہیں
کرتاتھااورمیں تم کوتوبرائی سے روکتا تھا لیکن خودبرے کام کرتاتھا۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۳۲۶۷)
اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شبِ
معراج میراگزرایسے لوگوں کے پاس سے ہواجن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے
کاٹے جارہے تھے، جب بھی ان کوکاٹاجاتاتوو ہ دوبارہ جڑجاتے اورپھران کوکاٹاجاتا۔میں
نے پوچھا:اے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی:یہ آپ کی امت کے وہ خطیب
ہیں جولوگوں کو تو نیکی کی دعوت دیتے تھے لیکن اپنی جانوں کو
بھول جاتے تھے حالانکہ وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے ،کیا وہ عقل نہیں رکھتے
تھے۔( مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ علیّ بن
زید عن انس، ۳ / ۳۷۰، الحدیث: ۳۹۷۹)