Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 23 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(23)
تفسیر: صراط الجنان
ا{لَا جَرَمَ: حقیقت یہ ہے ۔} یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں کے انکار اور ان کے غرور و تکبر کو جانتا ہے، بے شک اللّٰہ تعالیٰ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۲۴)
تکبر کی تعریف:
یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مومن ہو یا کافر، اللّٰہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
تکبر کرنے والوں کا انجام:
قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ‘‘(اعراف: ۱۴۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑا ئی چاہتے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(مومن:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
اور حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن مردوں کی صورت میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے ایک’’بُوْلَسْ‘‘ نامی قید خانہ کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور وہ دوزخیوں کی پیپ طِیْنَۃُ الْخَبَّالْ سے پلائے جائیں گے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰)
حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کوروندیں گے کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، ۲ / ۵۷۸، الحدیث: ۲۲۴)
حضرت محمد بن واسع رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں حضرت بلال بن ابو بردہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس گیا اور ان سے کہا :اے بلا ل ! آپ کے والد نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی ہے وہ اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) سے اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔‘‘ اے بلال! تم اس میں ٹھہرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، ۶ / ۲۰۷، الحدیث: ۷۲۱۳)
تکبر کے دو علاج:
تکبر کے برے انجام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک باطنی مرض ہے ،اس لئے جو اپنے اندر تکبر کا مرض پائے اسے چاہئے کہ وہ اس کا علاج کرنے کی خوب کوشش کرے ،اَحادیث میں تکبر کے جو علاج بیان کئے گئے ان میں سے دو علاج درج ذیل ہیں ۔
(1)…اپنے کام خود کرنا: چنانچہ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنا سامان خود اٹھایا وہ تکبر سے بری ہو گیا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی التواضع، ۶ / ۲۹۲، الحدیث: ۸۲۰۱)
(2)…عاجزی اختیار کرنا اور مسکین کے ساتھ بیٹھنا: چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو، اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ بلند ہو جائے گا اور تکبر سے بھی بری ہو جاؤ گے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۴۹، الحدیث: ۵۷۲۲، الجزء الثالث)
امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عاجزی:
ایک مرتبہ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا گزر چند مسکینوں کے پاس سے ہوا، وہ لوگ کچھ کھا رہے تھے ، انہوں نے حضرت امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھ کر کہا ’’اے ابو عبداللّٰہ ! آپ بھی یہ غذا کھا لیجئے۔ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی سواری سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ‘‘ یعنی بیشک اللّٰہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ پھران کے ساتھ کھانا شروع کر دیا، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو ان مسکینوں سے فرمایا ’’میں نے تمہاری دعوت قبول کی ہے اس لئے اب تم میری دعوت قبول کرو، چنانچہ وہ تمام مسکین امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ان کے درِ دولت پر گئے ،امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں کھانا کھلایا ، پانی پلایا اور انہیں کچھ عطا فرمایا، فراغت کے بعد وہ سب وہاں سے چلے گئے(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۰۶۱)۔([1])
[1] ۔۔۔ تکبر اور عاجزی سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے لئے کتاب ’’احیاء العلوم (مترجم)‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) جلد تین سے تکبر کا بیان ،اور کتاب ’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔