Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 42 ≫ Translation ≫ Tafsir
الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(42)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا:جنہوں نے صبر کیا ۔} یعنی عظیم ثواب کے حقدار وہ ہیں جنہوں نے اپنے اس وطن مکہ مکرمہ سے جدا ہونے پر صبر کیا حالانکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا حرم ہے اور ہر ایک کے دل میں اس کی محبت بسی ہوئی ہے۔ یونہی کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر اور جان ومال خرچ کرنے پر صبر کیا اور وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے دین کی وجہ سے جو پیش آئے اس پر راضی ہیں اور مخلوق سے رشتہ منقطع کرکے بالکل حق کی طرف متوجہ ہیں اور سالک کے لئے یہ انتہائے سلوک کا مقام ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۲۱۰، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۵ / ۳۶، ملتقطاً)
مہاجرین کا توکّل:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا توکل بہت عظیم تھا اورا س کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر اپنا مال و دولت اور گھر بار چھوڑ دیا ،وہ عزت کے بدلے لوگوں کی نظروں میں پائی جانے والی حقارت پر اور مالداری کے بدلے فقر و فاقہ پر راضی ہو گئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کی نظروں میں پائی جانے والی ان کی اس حقارت کو عزت میں اور فقر کو مالداری میں تبدیل فرما کر انہیں جزا دی اوروہ دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کے سردار ہو گئے۔ امام بوصیری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (قصیدہ بردہ شریف میں )فرماتے ہیں : ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نقیبوں اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حواریوں میں کوئی بھی ایسانہیں جو فضیلت میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی طرح ہو۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۱۰۶۹)