banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 43 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(43)

ترجمہ: کنزالایمان اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے تو اے لوگوعلم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا:اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے ۔} شانِ نزول : یہ آیت مشرکینِ مکہ کے جواب میں  نازل ہوئی جنہوں  نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا یہ دلیل دے کر انکار کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی شان اس سے برتر ہے کہ وہ کسی بشر کو رسول بنائے۔ اُنہیں  بتایا گیا کہ سنتِ الٰہی اسی طرح جاری ہے، ہمیشہ اس نے انسانوں  میں  سے مردوں  ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۲۳-۱۲۴)

{فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ:اے لوگو! علم والوں  سے پوچھو ۔} اس آیت میں  علم والوں  سے مراد اہلِ کتاب ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے کفار ِمکہ کو اہلِ کتاب سے دریافت کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ کفارِ مکہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ اہلِ کتاب کے پاس سابقہ کتابوں  کا علم ہے اور ان کی طرف اللّٰہ تعالیٰ نے رسول بھیجے تھے ، جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وغیرہ، اور وہ ان کی طرح بشر تھے تو جب کفار ِمکہ اہلِ کتاب سے پوچھتے تو وہ انہیں  بتا دیتے کہ جو رسول ان کی طرف بھیجے گئے وہ سب بشر ہی تھے، اس طرح ان کے دلوں  سے یہ شبہ زائل ہو جاتا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۲۴)

جو مسئلہ معلوم نہ ہو وہ علماءِ کرام سے پوچھا جائے:

اس آیت کے الفاظ کے عموم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس مسئلے کا علم نہ ہو اس کے بارے میں  علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ایک شخص کی وفات کا سبب سن کر)ارشاد فرمایا ’’ جب (رخصت کے بارے) انہیں  معلوم نہ تھا تو انہوں  نے پوچھا کیوں  نہیں کیونکہ جہالت کی بیماری کی شفاء دریافت کرنا ہے۔(ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی المجروح یتیمّم، ۱ / ۱۵۴، الحدیث: ۳۳۶)اور حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عالم کے لئے مناسب نہیں  کہ وہ اپنے علم پر خاموش رہے اور جاہل کے لئے مناسب نہیں  کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ (یعنی اے لوگو! اگر تم نہیں  جانتے تو علم والوں  سے پوچھو۔) لہٰذا مومن کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا عمل ہدایت کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے۔( در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۵ / ۱۳۳)

تقلید جائز ہے:

یاد رہے کہ یہ آیتِ کریمہ تقلید کے جواز بلکہ حکم پر بھی دلالت کرتی ہے جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب ’’اَلْاِکْلِیْلْ‘‘ میں  فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے علماء نے فروعی مسائل میں  عام آدمی کے لئے تقلید کے جواز پر استدلال فرمایا ہے ۔ (الاکلیل، سورۃ النحل، ص۱۶۳)بلکہ آیت فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِتقلید واجب ہونے کی صریح دلیل ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں  کہ اس آیت میں ’’اَهْلَ الذِّكْرِ‘‘ سے مسلمان علماء نہیں  بلکہ اہل کتاب کے علماء مراد ہیں  لہٰذا اس آیت کا تقلید کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ، ان کا یہ کہنا نری جہالت ہے کیونکہ یہ اس قانون کے خلاف ہے کہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ مخصوص سبب کا۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۱ / ۵۸۲)

تقلید کی تعریف:

تقلید کے شرعی معنی یہ ہیں  کہ کسی کے قول اور فعل کو یہ سمجھ کر اپنے اوپر لازمِ شرعی جاننا کہ اس کا کلام اور اس کا کام ہمارے لئے حجت ہے کیونکہ یہ شرعی محقق ہے۔

تقلید سے متعلق چند اہم مسائل:

(1)…عقائد اور صریح اسلامی احکام میں  کسی کی تقلید جائز نہیں  ۔

(2)…جو مسائل قرآن و حدیث یا اِجماعِ امت سے اِجتہاد اور اِستنباط کر کے نکالے جائیں  ان میں  غیر مُجتَہد پر چاروں  آئمہ میں  سے کسی ایک کی تقلید کرنا واجب ہے۔

(3)…اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’مذاہبِ اربعۂ اہلسنت سب رشد و ہدایت ہیں  جو ان میں  سے جس کی پیروی کرے اور عمر بھر اسی کا پیرورہے ،کبھی کسی مسئلے میں  اس کے خلاف نہ چلے وہ ضرور صراطِ مستقیم پر ہے اس پر شرعاً کوئی الزام نہیں ، ان میں  سے ہر مذہب انسان کیلئے نجات کو کافی ہے۔ تقلید ِشخصی کو شرک یا حرام ماننے والے گمراہ، ضالین، مُتَّبِعْ غَیْرِ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْن (یعنی مومنوں  کے راستے کے علاوہ کی پیروی کرنے والے) ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۷ / ۶۴۴)

          نوٹ: تقلید سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے کتاب ’’جاء الحق ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔

مُقَلِّد کا ایمان درست ہے یا نہیں ؟

جو شخص تقلید کے طور پر ایمان لایا اس کا ایمان صحیح ہونے کے بارے میں  علماء کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست نہیں  ، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے لیکن وہ غورو فکر اور اِستدلال ترک کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گا، اور بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے اور ایسے ایمان لانے والا گناہگار بھی نہیں  ہو گا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان علماء کے اَقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں  ’’بے شک ایمان نور کی ایک تجلی ہے اور وہ (جہالت کا ) پردہ  اٹھانا اور سینہ کھولنا ہے ، اللّٰہ تعالیٰ وہ نور اپنے بندوں  میں  سے جس کے دل میں  چاہے ڈالتا ہے خواہ یہ نور کا داخل ہونا غورو فکر سے ہو یا محض کسی کی بات سننے سے حاصل ہو، اور کسی عقلمند کے لئے یہ جائز نہیں  کہ وہ کہے :ایمان نظر و استدلال کے بغیر حاصل نہیں  ہوتا۔‘‘ ایسا ہر گز نہیں  ہو سکتا بلکہ خدا کی قسم! بسا اوقات اس شخص کا ایمان جو استدلال کا طریقہ نہیں  جانتا اُس سے کامل تر اور مضبوط تر ہوتا ہے جو بحث و مناظرے میں  آخری حد تک پہنچا ہوا ہو، تو جس کا سینہ اللّٰہ تعالیٰ اسلام کے لئے کھول دے اور وہ اپنے دل کو ایمان پر مطمئن پائے تو وہ قطعی طور پر مومن ہے اگرچہ وہ نہ جانتا ہو کہ اسے یہ عظیم نعمت کہاں  سے ملی ہے، اور آئمہ اربعہ وغیرہ محققین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن نے جو فرمایا کہ ’’مقلد کا ایمان صحیح ہے‘‘ اس کا یہی معنی ہے ،مقلد سے ان کی مراد وہ شخص ہے جو استدلال کرنا، بحث کے اسلوب اور گفتگو کے مختلف طریقے نہ جانتا ہو، رہا وہ شخص جس نے اپنے سینے کو اس یقین کے ساتھ اپنی طرف سے کشادہ نہ کیا تو اس نے ویسے ہی کہا جیسے منافق اپنی قبر میں  کہتا ہے :ہائے ہائے! مجھے نہیں  معلوم ،میں  لوگوں  کو کچھ کہتے سنتا تھا تو ان سے سن کر میں  بھی کہا کرتا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی تصدیق اس لئے کرے کہ مثلاً اس کا باپ اس بات کی تصدیق کرتا تھا اور وہ اپنے دل سے اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر یقین رکھتے ہوئے تصدیق نہ کرے تو ایسے شخص کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں  اور تقلیدی ایمان کی نفی کرنے والوں  کی بھی یہی مراد ہے ۔(المعتمد المستند شرح المعتقد المنتقد، الخاتمۃ فی بحث الایمان، ص۱۹۹-۲۰۰)