banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 60 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِۚ-وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰىؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(60)وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰـكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(61)

ترجمہ: کنزالایمان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے انہیں کا بُر ا حال ہے اور اللہ کی شان سب سے بلند اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر گرفت کرتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہیں چھوڑتا لیکن انہیں ایک ٹھہرائے وعدے تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا وعدہ آئے گا نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کیلئے بری حالت ہے اور اللہ کی سب سے بلندشان ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کی مدت آجائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ:اور اگر اللّٰہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا۔}اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کے بہت بڑے کفر اور برے اَقوال کا بیان فرمایا جبکہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کافروں پر جلدی عذاب نازل نہ فرما کر انہیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا اظہار ہو۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ۶۱، ۷ / ۲۲۷) چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں پر پکڑ لیتا اور عذاب میں جلدی فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا بلکہ سب کو ہلاک کردیتا۔ایک قول یہ ہے کہ زمین پر چلنے والے سے کافر مراد ہیں جیسا کہ دوسری آیت میں ہے۔’’اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘(انفال:۵۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: یعنی بیشک جانوروں میں سب  سے  بدتر، اللّٰہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں  نے کفر کیا۔

بعض مفسرین نے فرمایا ’’آیت کے معنی یہ ہیں  کہ روئے زمین پر کسی چلنے والے کو باقی نہیں چھوڑتا جیسا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں جو کوئی زمین پر تھا اُن سب کو ہلاک کردیا ، صرف وہی باقی رہے جو زمین پر نہ تھے بلکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کشتی میں تھے۔ اس آیت کے معنی میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’اللّٰہ تعالیٰ  ان کے ظالم باپ دادا کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کردیتا تو اُن کی نسلیں منقطع ہوجاتیں  اور زمین میں کوئی باقی نہ رہتا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ۶۱، ۳ / ۱۲۸، ملخصاً)

{وَ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى:لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ ان کے ظلم پر پکڑ نہیں فرماتا بلکہ اپنے فضل و کرم اور حِلم کی وجہ سے انہیں  زندگی کا وقت پورا ہونے تک یا قیامت آنے تک مہلت دیتا ہے۔ پھر جب ان کی مقررہ مدت آجائے گی تو وہ اس مدت سے نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ۶۱، ۳ / ۱۲۸، ملخصاً)