banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 59 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ(58)یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(59)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے ۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی بُرائی کے سبب کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ارے بہت ہی بُرا حکم لگاتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى:اور جب ان میں  کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جومشرکین اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں  قرار دے رہے ہیں  جب ان میں  کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غم، پریشانی اور پسند نہ ہونے کی وجہ سے سارا دن ا س کے چہرے کا رنگ بدلاہوا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھرا ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب مشرکین اپنے لئے ا س بات کو پسند نہیں  کرتے کہ بیٹی ان کی طرف منسوب ہو تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بیٹی کی نسبت کرنے کو انہوں  نے کیسے پسند کر لیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۱۲۷، ملخصاً)

 لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں  کا طریقہ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں  کا طریقہ ہے، فی زمانہ مسلمانوں  میں  بھی بیٹی پیدا ہونے پرغمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں  سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں  مٹھائی بانٹنے میں  عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں  پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں  پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں  طلاقیں  دے دینے تک کی وبا عام ہے، حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب کسی شخص کے ہاں  بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہاں  فرشتوں  کو بھیجتا ہے، وہ آ کر کہتے ہیں : اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں  سے اِحاطہ کر لیتے ہیں  اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ایک کمزور لڑکی ایک کمزور عورت سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا توقیامت کے دن اس کی مدد کی جائے گی۔ (معجم الصغیر، باب الالف، من اسمہ: احمد، ص۳۰، الجزء الاول)

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کے ہاں  بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے ، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں  داخل کرے گا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)

             اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کوعقلِ سلیم عطا کرے اور جس طرح وہ بیٹا پیدا ہونے پر خوشی سے پھولے نہیں  سماتے اسی طرح بیٹی پیدا ہونے پر بھی خوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

{یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ:لوگوں  سے چھپا پھرتا ہے ۔}مفسرین فرماتے ہیں  کہ زمانۂ جاہلیت میں  دستور یہ تھا کہ جب کسی شخص کی بیوی کے ہاں  زچگی کے آثار ظاہر ہوتے تو وہ شخص بچہ پیدا ہو جانے تک اپنی قوم سے چھپا رہتا، پھر اگر اسے معلوم ہوتا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ خوش ہوجاتا اور اپنی قوم کے سامنے آ جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ اس کے ہاں  بیٹی پیدا ہوئی ہے تو وہ غمزدہ ہو جاتا اور شرم کے مارے کئی دنوں  تک لوگوں  کے سامنے نہ آتا اورا س دوران غور کرتا رہتا کہ اس بیٹی کے ساتھ وہ کیا کرے؟ آیا ذلت برداشت کر کے ا س بیٹی کو اپنے پاس رکھے یا اسے زندہ درگور کر دے  جیسا کہ مُضَر، خُزَاعہ اور تمیم قبیلے کے کئی لوگ اپنی لڑکیوں  کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۲۷-۱۲۸، ملخصاً)

زمانۂ جاہلیت میں  بیٹیوں  سے متعلق کفار کا دستور اور اسلام کا کارنامہ:

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’زمانۂ جاہلیت میں  کفار مختلف طریقوں  سے اپنی بیٹیوں  کو قتل کردیتے تھے، ان میں  سے بعض گڑھا کھود تے اور بیٹی کو اس میں  ڈال کر گڑھا بند کر دیتے حتّٰی کہ وہ مر جاتی، اور بعض اسے پہاڑ کی چوٹی سے پھینک دیتے ، بعض ا سے غرق کر دیتے اور بعض اسے ذبح کر دیتے تھے ،ان کا بیٹیوں  کو قتل کرنا بعض اوقات غیرت اور حَمِیَّت کی وجہ سے ہوتا تھا اور بعض اوقات فقر و فاقہ اور نان نفقہ لازم ہونے کے خوف سے وہ ایسا کرتے تھے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹،۷ / ۲۲۶، ملخصاً) یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے جس نے دنیا میں  سب سے پہلے عورت کو حقوق عطا فرمائے اور اسے عزت و وقار سے نوازا۔ زندہ درگور ہونے والی کو جینے کاحق دیا اور اس کی پوری زندگی کے حقوق کی ایک فہرست بیان فرما دی، اس کے باوجود اگر کوئی جاہل اسلام کی تعلیمات کوعورتوں  کے حقوق کے مخالف سمجھتا ہے تو اسے اپنی جہالت اور دماغ کی خرابی کا علاج کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے۔

{اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ:خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔} یعنی ان مشرکین نے جو فیصلہ کیا ہے وہ کتنا برا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں  ثابت کرتے ہیں  جو اپنے لئے انہیں  انتہائی ناگوار ہیں  اور یونہی یہ بات کتنی بری ہے کہ  اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  جو رزق دیاہے اس میں  بتوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں  حالانکہ وہ نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت ہی نہیں  رکھتے اور جس رب عَزَّوَجَلَّ نے انہیں  پیدا کیا اوران پر احسانات فرمائے ہیں  اسے چھوڑ کر بتوں  کی عبادت کرتے ہیں۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۷ / ۶۰۰)