ترجمہ: کنزالایمان
اللہ کی نعمت پہچانتے ہیں پھر اس سے منکر ہوتے ہیں اور ان میں اکثر کافر ہیں ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کاانکار کردیتے ہیں اور ان میں اکثر کافر ہی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ:وہ اللّٰہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں ۔} یعنی جو نعمتیں ا س سورت میں
ذکر کی گئیں کفارِ مکہ اُن سب کو پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ سب اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہیں پھر بھی اس کاشکر بجا نہیں لاتے۔ مشہور مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کا وجود اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور اس کے باوجود پھر اس نعمت کاانکار کردیتے
ہیں یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان
نہیں لاتے اور اس طرح ان میں اکثر کافر ہی ہیں اور وہ دینِ اسلام قبول نہیں کرتے۔( خازن، النحل، تحت
الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۱۳۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۶۰۵، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۵۱۵، ملتقطاً)
سورت کا تعارف
سورۂ نحل کاتعارف
مقامِ
نزول:
سورۂ نحل مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے ، البتہ آیت ’’فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ‘‘ سے لے کر سورت کے آخر
تک جوآیات ہیں وہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئیں ،نیز اس بارے میں اور اَقوال بھی ہیں
۔ (خازن، تفسیر سورۃ النحل، ۳ / ۱۱۲)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 16رکوع اور 128آیتیں
ہیں ۔
’’نحل ‘‘نام رکھنے کی وجہ
:
عربی میں شہد کی مکھی
کو’’نحل ‘‘کہتے ہیں ۔ اس سورت کی آیت نمبر 68 میں اللّٰہ
تعالیٰ نے شہد کی مکھی کا ذکر فرمایا اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ نحل‘‘
رکھا گیا۔
سورۂ نحل سے متعلق
روایات:
(1) …حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک کی سورۂ نحل میں ایک
آیت ہے جو کہ تمام خیر و شر کے بیان کو جامع ہے اور وہ یہ آیت ہے: ’’اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ
وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ
الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ‘‘ (نحل:۹۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی
اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت
حاصل کرو۔( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن مسعود الہذلی، ۹ / ۱۳۲، الحدیث: ۸۶۵۸)
(2) …مروی ہے کہ (جب ) حضرت ہَرِم بن حَیَّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ(کی وفات کا وقت قریب آیا
توان)سے لوگوں نے عرض کی: آپ
کوئی وصیت فرما دیجئے۔ آپ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں تمہیں سورۂ نحل کی اس آیت’’ اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ
رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ‘‘ سے لے کر سورت کے آخر تک (بیان کی گئی باتوں ) کی وصیت کرتا ہوں ۔ (دارمی،
کتاب الوصایا، باب فضل الوصیۃ، ۲ / ۴۹۶، روایت نمبر: ۳۱۷۹)
مضامین
سورۂ نحل کے مضامین:
ا س سورت ِ مبارکہ کی بہت
پیاری خصوصیت یہ ہے اس میں بڑی کثرت کے ساتھ اللّٰہ
تعالیٰ کی عظمت، قدرت، حکمت اور وحدانیت پر دلائل دئیے گئے ہیں ۔ اگر کثرت سے اس
سورت کو سمجھ کر پڑھا جائے تو دل میں اللّٰہ
تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا اضافہ ہوتا ہے۔ نیز اس سورت میں اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیان بہت کثرت کے ساتھ ہے ، اگر ان نعمتوں کے
بارے میں بار بار غور کریں تو دل میں شکر ِ الٰہی کا جذبہ بیدار ہوگا اور محبت ِ
الہٰی میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ا س سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ۔
(1) …جانوروں سے حاصل
ہونے والے فوائد بیان کئے گئے۔
(2) …جنہوں نے دنیا میں
نیک کام کئے انہی کے لئے آخرت کی بھلائی ہے۔
(3) … فرشتے کفار کی جان
کس طرح نکالتے ہیں اور متقی مسلمانوں کی جان کس طرح نکالتے ہیں ۔
(4) … نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرامرَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اَذِیَّت دینے والے کفارِ مکہ کو اللّٰہ
تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا۔
(5) …بیٹی کی ولادت پر
کفار کا طرزِ عمل بیان کیا گیا۔
(6) …حشر کے میدان میں
کفار کی بری حالت ذکر کی گئی ۔
(7) …عہد پورا کرنے اور
قسمیں نہ توڑنے کا حکم دیا گیا۔
(8)…قرآنِ پاک کے بارے
میں کفار کے شبہات کا رد کیا گیا۔
(9)…حالت ِاِکراہ میں
کلمۂ کفر کہنے والے کا حکم بیان کیا گیا۔
(10) …اپنی طرف سے چیزوں
کو حلال یا حرام کہہ کر اس کی نسبت اللّٰہ
تعالیٰ کی طرف کرنے کی ممانعت فرمائی گئی۔
(11)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان بیان فرمائی گئی۔
(12) …نیکی کی دعوت دینے
کے ا نتہائی اہم اصول بیان کئے گئے۔
مناسبت
سورۂ حِجْر کے ساتھ مناسبت:
سورۂ نحل کی اپنے سے ماقبل سورت ’’حِجْر‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ حِجْرکی آیت
نمبر 92 میں فرمایا گیا ’’فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ ترجمۂ کنزُالعِرفان : تو
تمہارے رب کی قسم ،ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے۔‘‘
اس سے قیامتکے دن لوگوں کا جمع ہونا اور ان سے ان کے دنیوی اَعمال کے
بارے سوال کیا جانا ثابت ہوا۔ اسی طرح آیت نمبر 99 میں فرمایا گیا ’’وَ
اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ‘‘ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اپنے رب کی عبادت کرتے رہو حتّٰی کہ تمہیں موت آجائے۔ ‘‘
یہ آیت موت کے ذکر پر دلالت کرتی ہے۔ ان دونوں آیات کی سورۂ نحل کی پہلی آیت سے مناسبت ہے
کہ اس میں بھی قیامت قائم ہونے کا ذکر کیا
گیا ہے۔