Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 89 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ(89)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ:اور جس دن ہم ہر امت میں ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے۔} اس
آیت میں گواہ سے مراد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں، یہ قیامت کے دن اپنی
اپنی امتوں کے متعلق گواہی دیں گے کہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچایا اوراِن لوگوں کو ایمان
قبول کرنے کی دعوت دی۔( قرطبی، النحل، تحت
الآیۃ: ۸۹، ۵ /
۱۲۰، الجزء العاشر)
{ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ:اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر گواہ بناکر لائیں گے۔}
یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں اُمتوں اور ان کے خلاف گواہی دینے والے
انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام پر گواہ بنا کر
لائیں گے جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا
’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا
مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(نساء:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم
ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر
گواہ اور نگہبان بناکر لائیں گے۔( ابوسعو د، النحل،
تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ /
۲۸۷، روح
البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۶۹، ملتقطاً)
{تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ:جو ہر چیز کا روشن بیان
ہے۔} اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قرآن عظیم گواہ ہے اور
ا س کی گواہی کس قدر اعظم ہے کہ وہ ہر چیز کا تِبیان ہے اور تبیان اس روشن اور
واضح بیان کو کہتے ہیں جو اصلاً پوشیدگی نہ رکھے کہ لفظ کی زیادتی معنی کی
زیادتی پر دلیل ہوتی ہے اور بیان کے لئے ایک تو بیان کرنے والا چاہئے، وہ اللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ہے اور دوسرا وہ جس کے لئے بیان کیا جائے اور وہ وہ ہیں
جن پر قرآن اترا(یعنی) ہمارے سردار رسولُ
اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ۔اور اہلِ سنت کے نزدیک
’’شَیْءٍ‘‘ ہر موجود کو کہتے ہیں
تو اس میں جملہ موجودات داخل ہو گئے ،فرش سے عرش تک، شرق سے غرب تک،
ذاتیں اور حالتیں ، حرکات اور سکنات، پلک کی جنبشیں اور نگاہیں ، دلوں
کے خطرے اور ارادے اور ان کے سوا جو کچھ ہے (وہ سب اس میں داخل ہو گیا) اور انہیں
موجودات میں سے لوحِ محفوظ کی تحریر ہے، تو ضروری ہے کہ قرآنِ عظیم
میں ان تمام چیزوں کابیان روشن اور تفصیل کامل ہو اور یہ بھی ہم اسی
حکمت والے قرآن سے پوچھیں کہ لوح میں کیا کیا لکھا ہوا ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے
’’ كُلُّ صَغِیْرٍ وَّ
كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ‘‘(قمر:۵۳)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر چھوٹی اور بڑی چیز
لکھی ہوئی ہے۔)
اور فرماتا ہے
’’ وَ كُلَّ شَیْءٍ
اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ‘‘(یس:۱۲)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ایک ظاہر کردینے
والی کتاب (لوحِ
محفوظ) میں ہر چیز ہم نے
شمار کررکھی ہے۔)
اور فرماتا ہے
’’وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ
ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘(انعام:۵۹)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور نہ ہی زمین کی
تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے مگر وہ ان سب کو جانتا ہے۔ اور کوئی تر چیز
نہیں اور نہ ہی خشک چیز مگر وہ ایک روشن کتاب میں ہے۔)
اور بے شک صحیح حدیثیں
فرما رہی ہیں کہ روزِ اول سے آخر تک جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو گا سب
لوحِ محفوظ میں لکھا ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ جنت و دوزخ والے اپنے
ٹھکانے میں جائیں ،اور وہ جو ایک حدیث میں فرمایا کہ ابد تک کا سب حال
اس میں لکھا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے ،اس لئے کہ کبھی ابد بولتے ہیں اور اس
سے آئندہ کی مدتِ طویل مراد لیتے ہیں جیسا کہ بیضاوی میں ہے، ورنہ غیر مُتناہی
چیز کی تفصیلیں متناہی چیز نہیں اٹھا سکتی ،جیسا کہ پوشیدہ نہیں اور اسی
کو مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ کہتے ہیں ، اور بے
شک علمِ اصول میں بیان کر دیا گیا کہ نکرہ مقامِ نفی میں عام ہوتا ہے
تو جائز نہیں کہ اپنی کتاب میں اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی چیز بیان سے چھوڑ دی ہو اور’’ كُل ‘‘ کا لفظ تو عموم پر ہر
نص سے بڑھ کر نص ہے تو روا نہیں کہ روشن بیان اور تفصیل سے کوئی چیز چھوٹ
گئی ہو۔( الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ، النظر الخامس فی الدلائل
المدعی من الاحادیث والاقوال والآیات، ۷۵-۸۳)
قرآنِ کریم تمام علوم کی
جامع کتاب ہے:
آیت کے اس حصے
’’ تِبْیَانًا
لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:قرآن ہر چیز کا روشن
بیان ہے۔
نیز ایک اور آیت کے اس حصے
’’مَا فَرَّطْنَا فِی
الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‘‘(انعام:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نے اس کتاب میں
کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے جو تمام علوم کی جامع ہے ، اور
یہی بات اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں بھی بیان کی گئی ہے ،چنانچہ
ترمذی کی حدیث میں ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیش آنے والے فتنوں
کی خبر دی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اُن سے خلاصی کاطریقہ دریافت کیا۔ نبی
اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا’’اللّٰہ کی کتاب، جس میں
تم سے پہلے واقعات کی بھی خبر ہے ،تم سے بعد کے واقعات کی بھی اور تمہارے
آپس کے فیصلے بھی ہیں۔( ترمذی، کتاب فضائل
القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۵)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’جو علم چاہے وہ قرآن کو لازم
کرلے کیونکہ اس میں اَوّلین و آخرین کی خبریں ہیں ۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاوائل، باب اول ما ومن فعلہ، ۸ /
۳۳۷، الحدیث: ۱۰۷)
امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اُمت
کے سارے علوم حدیث کی شرح ہیں اور حدیث قرآن کی اور یہ بھی فرمایا کہ نبی
کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کوئی حکم بھی فرمایا وہ وہی تھا جو آپ کو قرآنِ پاک سے
مفہوم ہوا۔( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون فی
العلوم المستنبطۃ من القرآن، ۲ / ۴۷۶)
حضرت ابوبکر بن
مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ سے منقول ہے انہوں
نے ایک روز فرمایا کہ عالَم میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کتابُ اللّٰہ یعنی قرآن شریف میں
مذکور نہ ہو۔ اس پر کسی نے اُن سے کہا: سَراؤں کا ذکر کہاں ہے: آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا اس آیت ’’ لَیْسَ عَلَیْكُمْ
جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ(اس بارے میں تم پر کچھ
گناہ نہیں کہ ان گھروں میں جاؤ جو خاص کسی کی رہائش نہیں جن میں تمہیں نفع اٹھانے
کا اختیار ہے۔)‘‘ (النور:۲۹) میں ہے۔ ( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون فی
العلوم المستنبطۃ من القرآن، ۲ / ۴۷۷)
ابن ابوالفضل مرسی
نے کہا کہ اَوّلین و آخرین کے تمام علوم قرآنِ پاک میں ہیں ۔( روح المعانی، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۷ /
۶۰۸) غرض یہ کتاب جمیع علوم کی
جامع ہے اور جس کسی کو اس کاجتنا علم ملا ہے وہ اتنا ہی جانتا ہے۔
نوٹ: اس آیتِ مبارکہ سے
متعلق مزید تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم الشان
تصنیف ’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ
کَلَامَہُ الْمَصُوْنْ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْءْ‘‘(قرآن ہر چیز کا بیان ہے) کا مطالعہ فرمائیں ۔
{هُدًى وَّ رَحْمَةً:ہدایت اور رحمت۔} یعنی جس
نے قرآن کی تصدیق کی ،اس میں موجود اللّٰہ تعالیٰ کی حدوں پر اور اَمر و نہی پر عمل کیا، قرآن نے جن
چیزوں کو حلال کیا اسے حلال سمجھا اور جن چیزوں کو حرام کیا انہیں
حرام جانا تو اس کے لئے قرآن ہدایت اور رحمت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اوراس کی وحدانیت کا
اقرار کرنے والے کو قرآن آخرت میں بہترین ثواب اور عظیم مرتبے کی بشارت
دیتا ہے۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۷ /
۶۳۳)