banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 96 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ-وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(96)

ترجمہ: کنزالایمان جو تمہارے پاس ہے ہوچکے گا اور جو اللہ کے پاس ہے ہمیشہ رہنے والا ہے اور ضرور ہم صبر کرنے والوں کو ان کا وہ صلہ دیں گے جو ان کے سب سے اچھے کام کے قابل ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور ہم صبر کرنے والوں کو ان کے بہترین کاموں کے بدلے میں ان کا اجر ضرور دیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا عِنْدَكُمْ:جو تمہارے پاس ہے۔} یعنی تمہارے پاس جو دنیا کا سامان ہے یہ سب فنا اور ختم ہو جائے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کے پاس جو خزانۂ رحمت اور آخرت کا ثواب ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کو پچھلی آیت میں  بیان فرمایا کہ جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہے وہ تمہاری دنیوی کمائی سے بہتر ہے لہٰذا اپنے عہد کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے نہ توڑو۔

دنیا و آخرت کا مُوازنہ:

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : جس شخص کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی ہے اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے(تو اس کے لئے باقی اور بہتر کے بدلے فانی اور ناقص کو بیچ دینا مشکل نہیں  ہوتا )جس طرح برف کے مقابلے میں  جواہر بہتر اور باقی رہنے والے ہیں  اور برف کے مالک پر برف کو جواہر اور موتیوں  کے بدلے میں  بیچنا مشکل نہیں  ہوتا، اسی طرح دنیا اور آخرت کا معاملہ ہے، دنیا اس برف کی طرح ہے جو دھوپ میں  رکھی ہوئی ہو، وہ ختم ہونے تک پگھلتی رہتی ہے اور آخرت اس جوہر کی طرح ہے جو فنا نہیں  ہوتا، لہٰذا دنیا اور آخرت کے درمیان تَفاوُت کے بارے میں  جس قدر یقین اور معرفت مضبوط ہوگی اسی قدراس کا سودا کرنے اور معاملہ کرنے میں  رغبت مضبوط ہوگی حتّٰی کہ جس شخص کا یقین مضبوط ہوتا ہے وہ اپنے نفس اور مال دونو ں کو بیچ دیتا ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ‘‘(توبہ:۱۱۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ نے مسلمانوں  سے ان کی جانیں  اور ان کے مال اس بدلے میں  خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے۔

پھر بتایا کہ انہیں  اس سودے میں  نفع ہوا،چنانچہ ارشاد فرمایا

’’فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ‘‘(توبہ:۱۱۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اپنے اس سودے پر خوشیاں  مناؤ جو سودا تم نے کیا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، الشطر الثانی من الکتاب فی الزہد، بیان حقیقۃ الزہد، ۴ / ۲۶۸)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دنیا کے فنا اور زائل ہو جانے اور آخرت کے ہمیشہ باقی رہنے میں  خوب غورو فکر کرے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور دنیا کی فانی نعمتوں  اور لذتوں  سے بے رغبتی اختیار کرے۔