banner image

Home ur Surah An Najm ayat 14 Translation Tafsir

اَلنَّجْم

An Najm

HR Background

اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى(12)وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى(13)عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(14)

ترجمہ: کنزالایمان تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑ تے ہو۔ اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا۔ سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی کے پاس۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑ تے ہو۔ اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَتُمٰرُوْنَهٗ: تو کیا تم ان سے جھگڑ تے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کو جب معراج شریف کے واقعات معلوم ہوئے تو انہوں  نے ان واقعات کا انکار کر دیا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے طرح طرح کے سوالات کرنے لگے ،کبھی کہتے کہ ہمارے سامنے بیتُ المقدس کے اوصاف بیان کریں  اور کبھی کہتے کہ راستوں  میں  سفر کرنے والے ہمارے قافلوں  کے بارے میں  خبر دیں  تو اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ان کے دیکھے ہوئے کے بارے میں  جھگڑتے ہو حالانکہ انہوں  نے تو سدرۃُ المنتہیٰ کے پاس وہ جلوہ باربار دیکھا کیونکہ نمازوں  میں  تخفیف کی درخواست کرنے کیلئے چند بارچڑھنا اور اترنا ہوا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۴ / ۱۹۲، ملخصاً)

یہاں  ہم صحیح بخاری کی وہ روایت بیان کرتے ہیں  جس میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بار بار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضر ہونے کا ذکر ہے،چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’معراج کی رات مجھ پر ہر دن میں  پچاس نمازیں  فرض کی گئیں،پھر میں  واپس ہوا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس سے گزرا۔ انہوں  نے کہا: آپ کو کیا حکم دیا گیا؟ میں  نے کہا’’ ہر دن میں  پچاس نمازوں  کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت موسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کہا: آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں  ادا کرنے کی طاقت نہیں  رکھے گی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں  نے آپ سے پہلے لوگوں  کی آزمائش کی اور بنی اسرائیل کو تو خوب آزمایا ہے، لہٰذا آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹئے اور اس سے اپنی امت کے لیے آسانی مانگئے ۔ چنانچہ میں  واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دس نمازیں  کم کردیں  ۔پھر میں  جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا تو انہوں  پہلے جیسا کلام کیا ، میں  پھر رب تعالیٰ کی طرف لوٹا تواس نے مجھ سے دس معاف فرمادیں ، میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا،انہوں  نے پھر پہلے جیسا کلا م کیا ، میں  پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضر ہواتو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دس اور معاف کردیں  ، میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف لوٹا ،انہوں  نے پھر وہی کہا، میں  پھر لوٹا تو مجھے ہر دن دس نمازوں  کا حکم دیا گیا۔ میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف لوٹا ،انہوں  نے پھر وہی کہا، میں  پھر لوٹا تو مجھے ہر دن پانچ نمازوں  کا حکم دیا گیا ۔ میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف لوٹا اورانہوں  نے کہا کہ آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟میں  نے کہا ’’ہر دن پانچ نمازیں  ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں  نے کہا کہ آپ کی امت ہر دن پانچ نمازوں  کی طاقت نہیں  رکھتی ،میں  نے آپ سے پہلے لوگوں  کی آزمائش کرلی ہے اور بنی اسرائیل کو تو میں  نے اچھی طرح آزما لیا ہے، آپ پھر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹئے، آپ اس سے اپنی امت کے لیے کمی کا سوال کریں ۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کہا ’’ میں  نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اتنے سوال کرلیے کہ اب شرم کرتا ہوں ، لیکن میں  راضی ہوں  اورتسلیم کرتا ہوں ۔( بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ۲ / ۵۸۴، الحدیث: ۳۸۸۷)

اس روایت میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جن خدشات کا ذکر ہے ان کا ثبوت فی زمانہ عام نظر آتا ہے اورآج مسلمانوں  کے لئے جتنا مشکل پانچ نمازیں  ادا کرنا ہے شاید ہی کوئی چیز ان کے لئے اتنی مشکل ہو۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

{سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى: سدرۃ المنتہیٰ۔} سدرۃُ المنتہیٰ بیری کاایک درخت ہے ،اس کی جڑ چھٹے آسمان میں  ہے اور اس کی شاخیں  ساتویں  آسمان میں  پھیلی ہیں  جبکہ بلند ی میں  وہ ساتویں  آسمان سے بھی گزر گیا ہے،اس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں  جیسے اور پتے ہاتھی کے کانوں  کی طرح ہیں  ۔

مفسرین نے اس درخت کو سدرۃُ المنتہیٰ کہنے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ۔ان میں  سے دو وجوہات درج ذیل ہیں :

(1)…فرشتے،شُہداء اور مُتّقی لوگوں  کی اَرواح اس سے آگے نہیں  جا سکتیں  اس لئے اسے سدرۃُ المنتہیٰ کہتے ہیں ۔

(2)…زمین سے اوپر جانے والی چیزیں  اور اوپر سے نیچے آنے والی چیزیں  اس تک آ کر رک جاتی ہیں  اس لئے اسے سدرۃُ المنتہیٰ کہتے ہیں ۔( صاوی، النجم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۶ / ۲۰۴۷، قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۹ / ۷۱، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)

جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معراج کرائی گئی تو آپ کو سدرۃُ المنتہیٰ پر لے جایا گیا اور سدرہ چھٹے آسمان پر ہے ،زمین سے اوپر جانے والی چیزیں  سدرہ پر آ کر رک جاتی ہیں ، پھر انہیں  وصول کیا جاتا ہے اور اوپر سے نیچے آنے والی چیزیں  اس تک آ کر رک جاتی ہیں  پھر انہیں  وصول کیا جاتا ہے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی، ص۱۰۶، الحدیث: ۲۷۹(۱۷۳))