Home ≫ ur ≫ Surah An Najm ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى(2)
تفسیر: صراط الجنان
{ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ: تمہارے صاحب نہ بہکے۔} اس آیت میں ’’صَاحِبْ‘‘ سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ’’نہ بہکنے‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی حق اور ہدایت کے راستے سے عدول نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی توحید پر اور عبادت کرنے میں رہے، آپ کے دامنِ عِصْمَت پر کبھی کسی مکروہ کام کی گَرد نہ آئی اور’’ ٹیڑھا راستہ نہ چلنے‘‘ سے مرادیہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیشہ رُشد و ہدایت کی اعلیٰ منزل پرفائزرہے، فاسد عقائد کا شائبہ بھی کبھی آپ کی مبارک زندگی تک نہ پہنچ سکا۔( ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۶۴۱)
صَفی اور حبیب میں فرق:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے صَفی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا:
’’ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‘‘( طہ:۱۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ارشاد فرمایا:
’’ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمہارے صاحب نہ بہکے اورنہ ٹیڑھا راستہ چلے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بلند ہے۔
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نامِ اَقدس کے ساتھ لفظ ’’صاحب‘‘ ملانے کا شرعی حکم:
یہاں ایک شرعی مسئلہ یاد رہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر اطلاقِ صاحب خود قرآنِ عظیم میں وارد ’’وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱)مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى‘‘ مگر نامِ اقدس کے ساتھ اس طورپر لفظ ِ’’صاحب‘‘ کا ملانا (جیسے محمد صاحب کہنا) یہ آریوں اور پادریوں کا شِعار ہے، وہ اسے معروف تعظیم میں لاتے ہیں جو زید وعمر کے لئے رائج ہے کہ شیخ صاحب، مرزاصاحب، پادری صاحب، پنڈت صاحب، لہٰذا اس سے احتراز چاہئے، ہاں یوں کہا جائے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہمارے صاحب ہیں ، آقا ہیں ، مالک ہیں ، مولیٰ ہیں ۔( فتاوی رضویہ، کتاب السیر، ۱۴ / ۶۱۴)