banner image

Home ur Surah An Najm ayat 27 Translation Tafsir

اَلنَّجْم

An Najm

HR Background

اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓىٕكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى(27)وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّۚ-وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـا(28)فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى ﳔ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاﭤ(29)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک وہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ملائکہ کا نام عورتوں کا سا رکھتے ہیں ۔ اور انہیں اس کی کچھ خبر نہیں وہ تو نرے گمان کے پیچھے ہیں اور بے شک گمان یقین کی جگہ کچھ کام نہیں دیتا۔ تو تم اس سے منہ پھیر لو جو ہماری یاد سے پھرا اور اس نے نہ چاہی مگر دنیا کی زندگی۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے فرشتوں کے عورتوں جیسے نام رکھتے ہیں ۔ اور انہیں اس کا کوئی علم نہیں ،وہ تو صرف گمان کے پیچھے ہیں اور بیشک گمان یقین کی جگہ کچھ کام نہیں دیتا۔ تو تم اس سے منہ پھیر لو جو ہماری یادسے پھرا اور اس نے صرف دنیاوی زندگی کو چاہا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ: بیشک وہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو آخرت میں  دوبارہ زندہ ہونے پر یقین نہیں  رکھتے،وہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں  کو اس کی بیٹیا ں بتا کران کے عورتوں  جیسے نام رکھتے ہیں  حالانکہ انہیں  خود بھی اس بات کا کوئی یقینی علم نہیں  کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیا ں ہیں  بلکہ وہ تو فرشتوں  کو عورتیں  کہنے میں  صرف گمان کی پیروی کر رہے ہیں  اور اس بات میں  کوئی شک نہیں  کہ یقین کی جگہ گمان کچھ کام نہیں  دیتا کیونکہ حقیقتِ حال علم اوریقین سے معلوم ہوتی ہے نہ کہ وہم و گمان سے، لہٰذا اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس سے منہ پھیر لیں  جو ہمارے قرآن پر ایمان لانے سے پھرا اور اس نے صرف دُنْیَوی زندگی کو چاہا اور آخرت پر ایمان نہ لایاکہ اس کا طلبگار ہوتا اور آخرت کے لئے کچھ عمل کرتا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۹، ۴ / ۱۹۶)

{ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـا: اور بیشک گمان یقین کی جگہ کچھ کام نہیں  دیتا۔} اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں  کہ علماءِ کرام نے جن شرعی مسائل کا حکم قرآنِ پاک یا اَحادیثِ طیبہ وغیرہ میں  نہ پایا تو ان مسائل کا شرعی حکم قرآن و حدیث وغیرہ میں  موجود ان جیسے دیگر مسائل پر قیاس کرتے ہوئے بیان فرمایا اور وہ قیاس جو قرآنِ پاک، حدیث ِپاک اور اِجماع کے موافق ہو وہ بالکل حق ہے جبکہ وہ قیاس جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں  ہو وہ ناحق بلکہ بعض صورتوں  میں  کفر ہے اور یہاں  آیت میں  بھی اسی گمان کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں  ہو نہ کہ اس گمان کا ذکر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق ہو۔ قرآن و حدیث میں  اس قیاس کے جائز ہونے کا ثبوت موجود ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق ہو، جیسے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں  کا دُنْیَوی انجام بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:

’’ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ‘‘(حشر:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اے آنکھوں  والو! عبرت حاصل کرو۔

یعنی ہر شخص اپنی عملی حالت کو ان کفار کی حالت پر قیاس کر لے تو اسے اپنا انجام خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ اور سنن ابو داؤد میں  ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو ان سے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہارے سامنے مقدمہ پیش ہو گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے ۔حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے فیصلہ کروں  گا۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں  (اس کا حکم) نہ پاؤ (تو کیسے فیصلہ کرو گے)۔ حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت سے فیصلہ کروں  گا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر تم رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت میں  (اس کا حکم) نہ پاؤ اور نہ ہی کتابُ اللہ میں  پاؤ (تو کیسے فیصلہ کرو گے) حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :میں  اپنی رائے سے اِجتہاد کروں  گا اور حقیقت تک پہنچنے میں  کوتاہی نہ کروں  گا۔ (ان کی بات سن کر) حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سینے کو تھپکا اور فرمایا: ’’خدا عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے کہ جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھیجے ہوئے کو ا س چیز کی توفیق بخشی جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خوش کرے۔( ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اجتہاد الرأی فی القضاء، ۳ / ۴۲۴، الحدیث: ۳۵۹۲)

لہٰذا زیرِ تفسیر آیت کو قیاس کا مُطلَقاً انکار کرنے کی دلیل نہیں  بنایا جا سکتا ۔

{وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا: اور اس نے صرف دنیاوی زندگی کو چاہا۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین نہ آخرت کو مانتے ہیں  اور نہ وہاں  کے لئے تیاری کرتے ہیں  بلکہ ان کی ہر کوشش دنیا کے لئے ہوتی ہے ،اورفی زمانہ مسلمانوں  کا حال یہ ہے کہ وہ کفار کی طرح آخرت کا انکار تو نہیں  کرتے بلکہ انہیں  قیامت قائم ہونے،مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اورقیامت کے دن اعمال کے حساب اوران کی جزا و سزا پر ایمان ہے لیکن وہ آخرت کی تیاری سے انتہائی غافل اور صرف اپنی دنیا سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ آج مسلمان اپنی اولاد کو دُنْیَوی علوم و فنون کی تعلیم دینے اور ا س تعلیم پر آنے والے بھاری اخراجات برداشت کرنے پر اس لئے تیار ہیں  کہ ان کی دنیا سنور جائے گی جبکہ دینی اور مذہبی تعلیم دینے سے اس لئے کتراتے ہیں  کہ کہیں  ان کی دنیا خراب نہ ہو جائے اوریہی وجہ ہے کہ آج کل دینی مدارس میں  زیادہ تر تعداد ان طالب علموں  کی نظر آتی ہے جن کا تعلق غریب گھرانوں  سے ہے۔

حضرت موسیٰ بن یسار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں  فرمائی جو اسے دنیا سے زیادہ ناپسندیدہ ہواور اللہ تعالیٰ نے جب سے دنیا پیدا فرمائی ہے تب سے اس کی طرف نظر نہیں  فرمائی ۔( شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۳۸، الحدیث: ۱۰۵۰۰)

علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اصل مقصود نہیں  بنایا بلکہ اسے مقصود تک پہنچنے کا راستہ بنایا ہے۔(روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۲۴۰)اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے اور آخرت کی تیاری کی توفیق دے، اٰمین۔