Home ≫ ur ≫ Surah An Najm ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى(5)ذُوْ مِرَّةٍؕ-فَاسْتَوٰى(6)
تفسیر: صراط الجنان
{عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى: انہیں سخت قوتوں والے نے سکھایا۔} یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وحی فرمائی وہ انہیں سخت قوتوں والے ، طاقت والے نے سکھایا۔بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ سخت قوتوں والے ،طاقتور سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور سکھا نے سے مراد اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے سکھانا یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی کوحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک قلب تک پہنچانا ہے۔
حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی شدت اور قوت کا حال:
حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی شدت اور قوت کا یہ عالَم تھا کہ انہوں نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں کو زمین کی جڑ سے اکھاڑ کر اپنے پروں پر رکھ لیا اور آسمان کی طرف اتنا بلند کر دیا کہ ان لوگوں کے مرغوں کی بانگ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز فرشتوں نے سنی،پھر ان بستیوں کو پلٹ کر پھینک دیا۔ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ ارضِ مقدَّسہ کی گھاٹی میں ابلیس کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام کرتے دیکھا تو انہوں نے اپنے پر سے پھونک مار کر ابلیس کو ہند کی سرزمین کے دور دراز پہاڑ پر پھینک دیا۔ان کی شدّت کی یہ کیفِیَّت تھی کہ قومِ ثمود اپنی کثیر تعداد اور بھرپور قوت کا مالک ہونے کے باوجود حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی ایک ہی چیخ سے ہلاک ہو گئی۔ ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ پلک جھکنے میں آسمان سے زمین پر نازل ہوتے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک وحی پہنچا کر دوبارہ آسمان پر پہنچ جاتے ۔
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ’’شَدِیْدُ الْقُوٰى‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور اُس نے اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اپنی ذات کو اس وصف کے ساتھ ذکر فرمایا۔اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہیں کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے کسی واسطہ کے بغیر تعلیم فرمائی۔(روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۵، ۱۲، ۹ / ۲۱۴، ۲۱۸، قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۶۴، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)
{ فَاسْتَوٰى: پھر اس نے قصد فرمایا۔} عام مفسرین نے ’’ فَاسْتَوٰى‘‘ کا فاعل بھی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو قرار دیا ہے اوراس کے یہ معنی مراد لئے ہیں کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام اپنی اصلی صورت پر قائم ہوئے، اوراصلی صورت پر قائم ہونے کا سبب یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت جبریل کواُن کی اصلی صورت میں ملاحظہ فرمانے کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مشرق کی جانب میں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے نمودار ہوئے اور ان کے وجود سے مشرق سے مغرب تک کاعلاقہ بھر گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی اِنسان نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو اُن کی اصلی صورت میں نہیں دیکھا۔( ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۵ / ۶۴۲)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھنا تو صحیح ہے اور حدیث سے ثابت ہے لیکن یہ حدیث میں نہیں ہے کہ اس آیت میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھنا مراد ہے بلکہ ظاہری طور پر تفسیر یہ ہے کہ ’’فَاسْتَوٰى‘‘ سے مرادسَرْوَرِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بلند جگہ اوراعلیٰ مقام میں اِسْتَویٰ فرمانا ہے۔(تفسیر کبیر، النجم، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۲۳۸-۲۳۹)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُفُق ِاعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر اِسْتَویٰ فرمایا اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سِدْرَۃ ُالْمُنتہَیٰ پررک گئے اس سے آگے نہ بڑھ سکے اور عرض کی کہ اگر میں ذرا بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کی تَجَلّیات مجھے جلا ڈالیں گی ،پھر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آگے بڑھ گئے اور عرش کے اوپرسے بھی گزر گئے۔ (روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۲۱۷)
حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول یہ ہے کہ ا س آیت میں اِسْتَویٰ فرمانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔(تفسیر قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۶۵، الجزء السابع عشر)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ترجمے سے بھی اسی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہاں اِسْتَویٰ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔