Home ≫ ur ≫ Surah An Najm ≫ ayat 9 ≫ Translation ≫ Tafsir
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى(8)فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى(9)
تفسیر: صراط الجنان
{ ثُمَّ دَنَا: پھر وہ قریب ہوا۔} کون کس کے قریب ہوااس کے بارے میں مفسرین کے کئی قول ہیں ۔
(1)… اس سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کا نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قریب ہونا مراد ہے۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اپنی اصلی صورت دکھادینے کے بعد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قرب میں حاضر ہوئے پھر اور زیادہ قریب ہوئے ۔
(2)… اس سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اللہ تعالیٰ کے قرب سے مُشَرَّف ہونا مراد ہے اور آیت میں قریب ہونے سے حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اوپر چڑھنا اور ملاقات کرنا مراد ہے اور اتر آنے سے نازل ہونا،لوٹ آنا مراد ہے ۔اس قول کے مطابق آیت کا حاصلِ معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے قرب میں باریاب ہوئے پھر وصال کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوئے۔
(3)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ا س سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے قرب کی نعمت سے نوازا۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ رَبُّ اْلعِزَّت اپنے لطف و رحمت کے ساتھ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قریب ہو ااور اس قرب میں زیادتی فرمائی۔
یہ تیسرا قول صحیح تر ہے اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اور جَبَّارْ رَبُّ الْعِزَّتْ قریب ہوا۔( بخاری، کتاب التوحید، باب قولہ تعالی: وکلّم اللّٰہ موسی تکیلماً، ۴ / ۵۸۰، الحدیث: ۷۵۱۷)
(4)… اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بارگاہِ رَبُوبِیَّت میں مُقَرَّب ہو کر سجدۂ طاعت ادا کیا۔( تفسیرکبیر، النجم، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۲۳۹، قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۶۶، الجزء السابع عشر، روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۱۸-۲۱۹، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے مشہور کلام ’’قصیدۂ معراجیہ ‘‘میں اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :
پر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں میں ترقی افزا دَنٰی تَدَلّٰے کے سلسلے تھے
ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تَمَوُّجِ بحرِ ہو میں اُبھرا
دَنیٰ کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگراٹھا دیے تھے
اٹھے جو قصرِدنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
{ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى: تو دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔} اس آیت میں مذکور لفظِ ’’قَوْسَیْنِ‘‘ کا ایک معنی ہے دو ہاتھ (یعنی دو شرعی گز) اور ایک معنی ہے دو کمانیں ۔اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت جبریل اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان اتنا قرب ہوا کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلوے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان اتنی نزدیکی ہوئی کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔( تفسیر قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۶۶، ۶۸، الجزء السابع عشر)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’فاصلے کی یہ مقدار بتانے میں انتہائی قرب کی طرف اشارہ ہے کہ قرب اپنے کمال کو پہنچا اور باادب اَحباب میں جو نزدیکی تصوُّر کی جاسکتی ہے وہ اپنی انتہاء کو پہنچی۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس قدر قُربت سے معلوم ہوا کہ جوتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں مقبول ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی مقبول ہے اور جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ سے مَردُود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بھی مردود ہے۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۱۹)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں ،
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اس دَر سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا