banner image

Home ur Surah An Naml ayat 19 Translation Tafsir

اَلنَّمْل

An Naml

HR Background

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ(19)

ترجمہ: کنزالایمان تو اس کی بات سے مسکرا کر ہنسا اور عرض کی اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں شکر کروں تیرے احسان کا جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے اور یہ کہ میں وہ بھلا کام کرو ں جو تجھے پسند آئے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے قربِ خاص کے سزاوار ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو سلیمان اس کی بات پر مسکراکر ہنس پڑے اور عرض کی: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر اداکروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور (مجھے توفیق دے) کہ میں وہ نیک کام کروں جس پر تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا: تو اس کی بات پر مسکراکر ہنس پڑے۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب ملکہ چیونٹی کی بات سنی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے چیونٹیوں  کی حفاظت، ان کی ضروریات کی تدبیر اور چیونٹیوں  کو نصیحت کرنے پر تعجب کرتے ہوئے مسکرا کر ہنس پڑے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۸۴۲)

انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہنسنا تَبَسُّم ہی ہوتا ہے:

            یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہنسنا تبسم ہی ہوتا ہے وہ حضرات قہقہہ مار کر نہیں  ہنستے۔ حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں  کہ میں  نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کبھی پورا ہنستے نہ دیکھا حتّٰی کہ میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تالو دیکھ لیتی۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف مسکرایا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب الادب، باب التبسم والضحک، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۲)

{وَ قَالَ: اور عرض کی۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی نعمتیں  ملنے پر ا س کی حمد کرتے ہوئے عرض کی : اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے توفیق دے کہ میں  تیرے اس احسان کا شکر اداکروں  جو تو نے نبوت، ملک اور علم عطا فرما کر مجھ پر اور میرے ماں  باپ پر کیا اورمجھے توفیق دے کہ میں  بقیہ زندگی میں  بھی وہ نیک کام کرو ں  جس پر تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں  کے زمرے میں  شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں ۔ خاص قرب کے لائق بندوں  سے مراد اَنبیاء ومُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِکرام  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ ہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۰۵، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۸۴۲، ملتقطاً)