Home ≫ ur ≫ Surah An Naml ≫ ayat 33 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْۚ-مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ(32)قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّ اُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ ﳔ وَّ الْاَمْرُ اِلَیْكِ فَانْظُرِیْ مَا ذَا تَاْمُرِیْنَ(33)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتْ:ملکہ نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مکتوب کا مضمون سنا کر بلقیس اپنی مملکت کے وزرا ء کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا ’’اے سردارو!میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں کسی معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر نہ ہو۔سرداروں نے کہا: ہم قوت والے ہیں اور بڑی سخت جنگ لڑ سکتے ہیں ۔ اس سے اُن کی مراد یہ تھی کہ اگر تیری رائے جنگ کی ہو تو ہم لوگ اس کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم بہادر اور شُجاع ہیں ، قوت وتوانائی والے ہیں ، کثیر فوجیں رکھتے ہیں اورجنگ آزما ہیں ۔سرداروں نے مزید کہا کہ صلح یا لڑائی کااختیار توتمہارے ہی پاس ہے،اے ملکہ! تو تم غور کرلو کہ تم کیا حکم دیتی ہو؟ ہم تیری اطاعت کریں گے اور تیرے حکم کے منتظرہیں ۔ اس جواب میں انہوں نے یہ اشارہ کیا کہ اُن کی رائے جنگ کی ہے یا اس جواب سے ان کا مقصدیہ تھا کہ ہم جنگی لوگ ہیں ، رائے اور مشورہ دینا ہمارا کام نہیں ، تم خود صاحب ِعقل اور صاحب ِتدبیر ہو، ہم بہرحال تیری اطاعت کریں گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ص۸۴۵، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ۳ / ۴۰۹-۴۱۰، ملتقطاً)