banner image

Home ur Surah An Naml ayat 41 Translation Tafsir

اَلنَّمْل

An Naml

HR Background

قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ(41)فَلَمَّا جَآءَتْ قِیْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِؕ-قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَۚ-وَ اُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَ كُنَّا مُسْلِمِیْنَ(42)وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(43)

ترجمہ: کنزالایمان سلیمان نے حکم دیا عورت کا تخت اس کے سامنے وضع بدل کر بیگانہ کردو کہ ہم دیکھیں کہ وہ راہ پاتی ہے یا ان میں ہوتی ہے جو ناواقف رہے۔ پھر جب وہ آئی اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے بولی گویا یہ وہی ہے اور ہم کو اس واقعہ سے پہلے خبر مل چکی اور ہم فرمانبردار ہوئے۔ اور اسے روکا اس چیز نے جسے وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی بیشک وہ کافر لوگوں میں سے تھی۔ ترجمہ: کنزالعرفان حضرت سلیمان نے حکم دیا: اس ملکہ کیلئے اس کے تخت کو تبدیل کردوتا کہ ہم دیکھیں کہ وہ راہ پاتی ہے یا راہ نہ پانے والوں میں سے ہوتی ہے۔ پھر جب وہ آئی تواس سے کہا گیا: کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے جواب دیا:گویا یہ وہی ہےاور ہم کو اس واقعہ سے پہلے خبر مل چکی اور ہم فرمانبردار ہوئے۔ اور اسے اُس چیز نے روک رکھا تھا جس کی وہ اللہ کے سواعبادت کرتی تھی۔ بیشک وہ کافر قوم میں سے تھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: حضرت سلیمان نے حکم دیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تخت آ جانے کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے خادموں  کوحکم دیا کہ اس ملکہ کیلئے اس کے تخت کی شکل و صورت کو تبدیل کردوتا کہ ہم دیکھیں  کہ وہ اپنے تخت کو دیکھنے کے بعد اسے پہچان پاتی ہے یا نہیں ۔ جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئی تواس وقت تخت حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے موجودتھا۔ملکہ سے کہا گیا: کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے جواب دیا:گویا یہ وہی ہے۔ اس جواب سے بلقیس کی عقل کا کمال معلوم ہوا۔پھر ملکہ سے کہا گیا کہ یہ تیرا ہی تخت ہے۔ تمہیں  دروازے بند کرنے،انہیں  تالے لگانے اور پہرے دار مقرر کرنے سے کیا فائدہ ہوا؟ پھر ملکہ بلقیس نے اطاعت قبول کرتے ہوئے کہا: ’’ہمیں  اللہ تعالٰی کی قدرت اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت صحیح ہونے کی خبر اس واقعہ سے پہلے ہد ہد کے واقعہ سے اور وفد کے امیر سے مل چکی ہے اور ہم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کی۔‘‘( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۶ / ۳۵۲، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۳ / ۴۱۳، ملتقطاً)

{وَ صَدَّهَا: اور اسے روکا۔} یعنی بلقیس کو اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے سے یا اسلام قبول کرنے کی طرف سبقت کرنے سے سورج کی پوجا نے روک رکھا تھااوربلقیس کا تعلق اس قوم سے تھا جو سورج کی پجاری تھی اور وہ چونکہ انہیں  میں  پلی بڑھی تھی اس لئے اسے صرف سورج کی عبادت کرنا ہی آتاتھا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۴۱۳، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۴۸، ملتقطاً)