banner image

Home ur Surah An Naml ayat 44 Translation Tafsir

اَلنَّمْل

An Naml

HR Background

قِیْلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَۚ-فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَاؕ-قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ۬ؕ-قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(44)

ترجمہ: کنزالایمان اس سے کہا گیا صحن میں آ پھر جب اس نے اُسے دیکھا اسے گہرا پانی سمجھی اور اپنی ساقیں کھولیں سلیمان نے فرمایا یہ تو ایک چکنا صحن ہے شیشوں جڑا عورت نے عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب سلیمان کے ساتھ اللہ کے حضور گردن رکھتی ہوں جو رب سارے جہان کا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اس سے کہا گیا: صحن میں داخل ہوجاؤ تو جب اس نے اس صحن کو دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھی اور اپنی پنڈلیوں سے (کپڑا) اٹھا دیا، سلیمان نے فرمایا: یہ تو شیشوں سے جڑاؤ کیا ہوا ایک ملائم صحن ہے۔ اس نے عرض کی: اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیااور میں سلیمان کے ساتھ اس اللہ کے حضور گردن رکھتی ہوں جو سارے جہان کا رب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قِیْلَ لَهَا: اس سے کہا گیا۔} تخت میں  تبدیلی کر کے ملکہ بلقیس کی عقل کا امتحان لینے کے بعد ا س سے کہا گیا کہ تم صحن میں  آ جاؤ۔وہ صحن شفاف شیشے کا بنا ہوا تھا اوراس کے نیچے پانی جاری تھاجس میں  مچھلیاں  تیر رہی تھیں  اور اس صحن کے وسط میں  حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تخت تھا جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جلوہ افروز ہو چکے تھے۔ جب ملکہ نے اُس صحن کو دیکھا تو وہ سمجھی کہ یہ گہرا پانی ہے، اس لئے اس نے اپنی پنڈلیوں  سے کپڑا اونچا کر لیا  تاکہ پانی میں  چل کر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں  حاضر ہو سکے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا: ’’یہ پانی نہیں  بلکہ یہ تو شیشوں  سے جڑا ہوا ایک ملائم صحن ہے۔ یہ سن کر بلقیس نے اپنی پنڈلیاں  چھپالیں  اور یہ عجوبہ دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا اور اس نے یقین کر لیا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک اورحکومت اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور ان عجائبات سے بلقیس نے اللہ تعالٰی کی توحید اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت پر اِستدلال کیا ہے۔اب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  نے تیری عبادت کی بجائے سورج کی عبادت کر کے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں  حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور گردن رکھتی ہوں  جو سارے جہان کا رب ہے۔ چنانچہ ملکہ بلقیس نے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالٰی کی وحدا نیت کا اقرار کرکے اسلام قبول کرلیا اور صرف اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے کواختیار کیا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۴۱۳-۴۱۴، ملخصاً)

            آیت میں  بیان کردہ واقعے سے یہ سمجھانا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ اَشیاء جیسے نظر آ ئیں  حقیقت میں  ویسے ہونا ضروری نہیں  لہٰذا سورج کی پوجا کو ملکہ بلقیس جیسے درست سمجھتی آرہی تھی وہ حقیقت میں  ویسی درست نہیں  بلکہ مکمل طور پر خلاف ِ حقیقت و خلافِ حق تھی۔