banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 1 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

یٰۤاَیُّهَا  النَّاسُ   اتَّقُوْا  رَبَّكُمُ  الَّذِیْ  خَلَقَكُمْ  مِّنْ  نَّفْسٍ  وَّاحِدَةٍ  وَّ  خَلَقَ  مِنْهَا  زَوْجَهَا  وَ  بَثَّ  مِنْهُمَا  رِجَالًا  كَثِیْرًا  وَّ  نِسَآءًۚ-وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  الَّذِیْ  تَسَآءَلُوْنَ  بِهٖ  وَ  الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  كَانَ  عَلَیْكُمْ  رَقِیْبًا(1)

ترجمہ: کنزالایمان اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بیشک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پرایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں (کو توڑنے سے بچو۔) بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا  النَّاسُ: اے لوگو۔} اس آیتِ مبارکہ میں تمام بنی آدم کو خطاب کیا گیا ہے اور سب کو تقویٰ کا حکم دیا ہے۔ کافروں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ وہ ایمان لائیں اور اعمالِ صالحہ کریں اور مسلمانوں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اعمالِ صالحہ بجالائیں۔ ہر ایک کو اس کے مطابق تقویٰ کا حکم ہوگا۔اس کے بعدیہاں چند چیزیں بیان فرمائیں :

 (1)…اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا کیا۔

 (2)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وجود سے ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پیدا کیا۔

(3)… انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری ہوا۔

(4)…چونکہ نسلِ انسانی کے پھیلنے سے باہم ظلم اور حق تَلفی کا سلسلہ بھی شروع ہوا لہٰذا خوف ِ خدا کا حکم دیا گیا تاکہ ظلم سے بچیں اور چونکہ ظلم کی ایک صورت اور بدتر صورت رشتے داروں سے قطع تَعَلُّقی ہے لہٰذا اس سے بچنے کا حکم دیا۔

انسانوں کی ابتداء کس سے ہوئی؟:

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ابتداء حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہوئی اور اسی لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ابوالبشر یعنی انسانوں کا باپ کہا جاتا ہے۔ اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے انسانیت کی ابتداء ہونا بڑی قوی دلیل سے ثابت ہے مثلاً دنیا کی مردم شماری سے پتا چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے دنیا میں انسانوں کی تعداد آج سے بہت کم تھی اور اس سے سو برس پہلے اور بھی کم تو اس طرح ماضی کی طرف چلتے چلتے اس کمی کی انتہاء ایک ذات قرار پائے گی اور وہ ذات حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا یوں کہئے کہ قبیلوں کی کثیر تعداد ایک شخص پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں مثلاً سیّد دنیا میں کروڑوں پائے جائیں گے مگر اُن کی انتہاء رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک ذات پر ہوگی، یونہی بنی اسرائیل کتنے بھی کثیر ہوں مگر اس تمام کثرت کا اختتام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک ذات پر ہوگا۔ اب اسی طرح اور اوپر کو چلنا شروع کریں تو انسان کے تمام کنبوں ، قبیلوں کی انتہاء ایک ذات پر ہوگی جس کا نام تمام آسمانی کتابوں میں آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک شخص پیدائش کے موجودہ طریقے سے پیدا ہوا ہو یعنی ماں باپ سے پیدا ہوا ہو کیونکہ اگر اس کے لئے باپ فرض بھی کیا جائے تو ماں کہاں سے آئے اور پھر جسے باپ مانا وہ خود کہاں سے آیا؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی پیدائش بغیر ماں باپ کے ہو اور جب بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا تو بالیقین وہ اِس طریقے سے ہٹ کر پیدا ہوا اور وہ طریقہ قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا جو انسان کی رہائش یعنی دنیا کا بنیادی جز ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ایک انسان یوں وجود میں آگیا تو دوسرا ایسا وجود چاہیے جس سے نسلِ انسانی چل سکے تو دوسرے کو بھی پیدا کیا گیا لیکن دوسرے کو پہلے کی طرح مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کرنے کی بجائے  جو ایک شخص انسانی موجود تھا اسی کے وجود سے پید افرما دیا کیونکہ ایک شخص کے پیدا ہونے سے نوع موجود ہوچکی تھی چنانچہ دوسرا وجود پہلے وجود سے کچھ کم تر اور عام انسانی وجود سے بلند تر طریقے سے پیدا کیا گیا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بائیں پسلی ان کے آرام کے دوران نکالی اور اُن سے اُن کی بیوی حضرت حوا  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پیدا کیا گیا۔ چونکہ حضرت حوا  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا مرد وعورت والے باہمی ملاپ سے پیدا نہیں ہوئیں اس لئے وہ اولاد نہیں ہو سکتیں۔ خواب سے بیدار ہو کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پاس حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو دیکھا تو ہم جنس کی محبت دل میں پیدا ہوئی ۔ مخاطب کرکے حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا تم کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا: عورت۔ فرمایا: کس لئے پیدا کی گئی ہو؟ عرض کیا: آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تسکین کی خاطر، چنانچہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے مانوس ہوگئے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۳۴۰)

یہ وہ معقول اور سمجھ میں آنے والا طریقہ ہے جس سے نسلِ انسانی کی ابتداء کا پتا چلتا ہے۔ بقیہ وہ جو کچھ لوگوں نے بندروں والا طریقہ نکالا ہے کہ انسان بندر سے بنا ہے تویہ پرلے درجے کی نامعقول بات ہے۔ یہاں ہم سنجیدگی کے ساتھ چند سوالات سامنے رکھتے ہیں۔ آپ ان پر غور کرلیں ، حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان بندر ہی سے بنا ہے تو کئی ہزار سالوں سے کوئی جدید بندر انسان کیوں نہ بن سکا اور آج ساری دنیا پوری کوشش کرکے کسی بندر کو انسان کیوں نہ بنا سکی؟ نیز بندروں سے انسان بننے کا سلسلہ کب شروع ہوا تھا ؟کس نے یہ بنتے دیکھا تھا؟ کون اس کا راوی ہے؟ کس پرانی کتاب سے یہ بات مطالعہ میں آئی ہے؟نیز یہ سلسلہ شروع کب ہوا اور کب سے بندروں پر پابندی لگ گئی کہ جناب! آئندہ آپ میں کوئی انسان بننے کی جرأت نہ کرے۔ نیز بندر سے انسان بنا تو دُم کا کیا بنا تھا؟ کیا انسان بنتے ہی دُم جھڑ گئی تھی یا کچھ عرصے بعد کاٹی گئی یا گھسٹ گھسٹ کر ختم ہوگئی اور بہرحال جو کچھ بھی ہوا ،کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ دُم والے انسان پائے جاتے تھے۔ الغرض بندروں والی بات بندر ہی کرسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں جس بات کا شور مچایا ہوا ہے اس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ، اس کی کوئی کَڑی سلامت نہیں ، اس کی کوئی تاریخ نہیں۔ بس خیالی مفروضے قائم کرکے اچھے بھلے انسان کو بندر سے جاملایا۔

{وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  الَّذِیْ  تَسَآءَلُوْنَ  بِهٖ  وَ  الْاَرْحَامَ: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔}

 ارشاد فرمایا کہ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو یعنی کہتے ہو کہ اللہ کے واسطے مجھے یہ دو، وہ دو۔ نیز رشتے داری توڑنے کے معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔

رشتے داری توڑنے کی مذمت:

قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں رشتہ داری توڑنے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(رعد: ۲۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کا عہد اسے پختہ کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں اور جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کیلئے لعنت ہی ہے اور اُن کیلئے برا گھر ہے۔

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان، ۶ / ۲۲۳، الحدیث: ۷۹۶۲)

اور حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۷-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۱۹)

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ رشتے داری توڑنے سے بچے اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات جوڑ کر رکھنے کی بھرپور کوشش کرے۔