banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 2 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا(2)

ترجمہ: کنزالایمان اور یتیموں کو ان کے مال دو اور ستھرے کے بدلے گندا نہ لو اور ان کے مال اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور یتیموں کو ان کے مال دیدو اور پاکیزہ مال کے بدلے گندا مال نہ لواور ان کے مالوں کو اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ:اور یتیموں کو ان کا مال دو۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اُس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا، جب وہ یتیم بالغ ہو ا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا اِس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اُس شخص نے یتیم کا مال اُس کے حوالے کردیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہیں۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۱۴۱)

            آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب یتیم اپنا مال طلب کریں تو ان کا مال ان کے حوالے کردو جب کہ دیگر شرعی تقاضوں کو پورا کرلیا ہے اور اپنے حلال مال کے بدلے یتیم کا مال نہ لو جو تمہارے لئے حرام ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے کر اس کا عمدہ مال لے لو۔ یہ تمہارا گھٹیا مال تمہارے لئے عمدہ ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال ہے اور یتیم کا عمدہ مال تمہارے لئے گھٹیا اور خبیث ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے حرام ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا حرام ہوا یعنی گھٹیا معاوضہ دے کر کھانا بھی حرام ہے تو بغیر معاوضہ کے کھالینا تو بطریق اَولیٰ حرام ہوا۔ ہاں شریعت نے جہاں ان کا مال ملا کر استعمال کی اجازت دی وہ جدا ہے جس کا بیان سورہ ٔبقرہ آیت 220 میں ہے۔

یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل:

            یتیم اس نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہوجائے۔ آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کئے جاتے ہیں :

(1)… یتیم کوتحفہ دے سکتے ہیں مگر اس کاتحفہ لے نہیں سکتے ۔

(2)… کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ورثاء میں یتیم بچے بھی ہوں تو اس ترکے سے تیجہ، چالیسواں ، نیاز، فاتحہ اور خیرات کرنا سب حرام ہے اور لوگوں کا یتیموں کے مال والی اُس نیاز، فاتحہ کے کھانے کو کھانا بھی حرام ہے ۔ یہ مسئلہ بہت زیادہ پیش آنے والا ہے لیکن افسوس کہ لوگ بے دھڑک یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں۔

(3)… ایسے موقع پر جائز نیاز کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء خاص اپنے مال سے نیاز دلائیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں وہ دعوت مراد نہیں ہے جو تدفین کے بعد یا سوئم کے دن کی پکائی جاتی ہے کیونکہ وہ دعوت تو بہر صورت ناجائز ہے خواہ اپنے مال سے کریں۔ مسئلہ: تیجہ، فاتحہ کا ایصالِ ثواب جائز ہے لیکن رشتے داروں اور اہلِ محلہ کی جو دعوت کی جاتی ہے یہ ناجائز ہے، وہ کھانا صرف فقراء کو کھلانے کی اجازت ہے۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 9ویں جلد سے ان دو رسائل کامطالعہ فرمائیں (1) اَلْحُجَّۃُ الْفَائِحہْ لِطِیْبِ التَّعْیِیْنِ وَالْفَاتِحَہْ۔(دن متعین کرنے اور مروجہ فاتحہ،سوئم وغیرہ کا ثبوت)(2) جَلِیُّ الصَّوْتْ لِنَھْیِ الدَّعْوَۃِ اَمَامَ مَوْتْ۔(کسی کی موت پردعوت کرنے کی ممانعت کا واضح بیان)