ترجمہ: کنزالایمان
اور اگر وہ دونوں جدا ہوجائیں تو اللہ اپنی کشائش سے تم میں ہر ایک کو دوسرے سے بے نیاز کردے گااور اللہ کشائش والا حکمت والا ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر وہ (میاں بیوی) دونوں جدا ہوجائیں تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو دوسرے سے بے نیاز کردے گا اوراللہ وسعت والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا: اور اگر وہ دونوں جدا ہوجائیں۔} یعنی اگر
میاں بیوی میں صلح نہ ہوسکے اور طلاق واقع ہو جائے تو دونوں اللہعَزَّوَجَلَّ پر توکل کریں ، اللہ کریم ،عورت کو اچھا خاوند اور مرد کو اچھی بیوی عطا فرما دے گا اور
وسعت بھی بخشے گا۔
عورت اور
مرد بالکل ایک دوسرے کے محتاج نہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نہ عورت بالکل مرد کی محتاج ہے اور نہ مرد بالکل
عورت کا حاجت مند، سب رب عَزَّوَجَلَّکے حاجت
مند ہیں ، ایک دوسرے کے بغیر کام چل سکتا ہے۔ عام طور پر طلاق کے بعد عورت اور اس
کے گھر والے بہت غمزدہ ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر اگر یہ آیتِ مبارکہ بار بار پڑھی
جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دل کو
تسکین ملے گی اور اللہعَزَّوَجَلَّ مناسب حل بھی عطا فرما دے
گا۔ اس میں شوہروں کو بھی ہدایت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بیویوں کے مالک و مختار نہ
سمجھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ اگر انہوں نے چھوڑ دیا تو اب کائنات میں کوئی ان
عورتوں کا سہارا نہیں رہے گا۔ نہیں نہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کو سہارا دے گا۔اسی سلسلے میں یہاں ایک مفید وظیفہ پیشِ خدمت ہے۔
اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’میں نے رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس بندے کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھ لے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ
اللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ‘‘تو اللہ تعالیٰاسے مصیبت پر ثواب عطا فرمائے گا اورا س سے بہتر چیز
اسے عطا کرے گا۔ فرماتی ہیں : جب میرے شوہر حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا انتقال ہو اتو میں نے یہی دعا پڑھی، اس کی
برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بہترین شوہر یعنی رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عطا فرما دئیے۔(مسلم،کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص۴۵۷، الحدیث: ۴(۹۱۸))
سورۂ نساء مدینہ منورہ
میں نازل ہوئی ہے۔ (خازن، النساء،ج۱،
ص ۳۴۰)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس میں 24رکوع اور 176 آیتیں
ہیں۔
’’نساء‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں عورتوں
کو’’نساء‘‘ کہتے ہیں اوراس سورت میں بہ کثرت وہ احکام بیان کئے گئے ہیں جن کا تعلق
عورتوں کے ساتھ ہے ا س لئے اسے ’’ سورۂ نساء‘‘ کہتے ہیں۔
سورۂ نساء کے فضائل:
(1)…سورۂ نساء کی
ایک آیتِ مبارکہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُفرماتے
ہیں ، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’مجھے قرآنِ مجید پڑھ کر سناؤ۔میں نے عرض
کی: یا رسولاللہ! صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ یہ تو آپ پر
نازل فرمایاگیا ہے!ارشاد فرمایا ’’ہاں (تم پڑھ کر سناؤ) ۔ چنانچہ میں نے سورۂ نساء پڑھی حتّٰی کہ جب میں
اس آیت پر پہنچا : فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا
بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱) (نساء:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو کیسا حال ہوگا جب ہم
ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان
بناکر لائیں گے۔
تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَنے
ارشاد فرمایا’’بس کرو ،اب تمہارے لئے یہی کافی ہے۔میں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَکی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں
ہیں۔ (بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب قول المقریء
للقاریئ: حسبک،۳ / ۴۱۶، الحدیث:۵۰۵۰)
(2)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’سورۂ بقرہ،
سورۂ نساء، سورۂ مائدہ، سورۂ حج اور سورۂ نور سیکھو کیونکہ ان سورتوں میں فرض
علوم بیان کئے گئے ہیں۔(مستدرک، کتاب التفسیر،
تفسیر سورۃ النور،۳ / ۱۵۸، الحدیث:۳۵۴۵)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’جس نے سورۂ نساء پڑھی تو وہ جان لے
گا کہ وراثت میں کون کس سے محروم ہوتا ہے اور کون کس سے محروم نہیں ہوتا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفرائض، ما قالوا فی
تعلیم الفرائض،۷ / ۳۲۴، الحدیث:۵)
(4)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’جس نے سورۂ
بقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ نساء پڑھی تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حکمت والے لوگوں میں سے لکھا جائے گا۔(شعب
الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان، فصل فی فضائل السور والآیات،۲ /
۴۶۸،
الحدیث:۲۴۲۴)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں یتیم بچوں اور عورتوں کے حقوق اور ان
سے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں جیسے یتیم بچوں کے
مال کو اپنے مال میں ملا کر کھا جانے کو بڑ اگناہ قرار دیا گیا۔ناسمجھ یتیم بچوں
کا مال ان کے حوالے کرنے سے منع کیا گیا اور جب وہ شادی کے قابل اور سمجھدار ہو
جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کردینے کا حکم دیاگیا۔ یتیموں کے مال ناحق کھا جانے
پر وعید بیان کی گئی۔ اسی طرح عورتوں کا مہر انہیں دینے کا حکم دیا گیا اور مہر سے
متعلق چند اور مسائل بیان کئے گئے۔ میراث کے مال
میں عورتوں کے باقاعدہ حصے مقرر کئے گئے ۔ ان عورتوں کا ذکر کیا گیا جن سے
نسب، رَضاعت اور مُصاہَرت کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہے اور جن عورتوں سے
کسی سبب کی وجہ سے عارضی طور پر نکاح حرام ہے۔
ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ شادی کرنے کے احکام بیان کئے گئے اورنافرمان عورت کی
اصلاح کا طریقہ ذکر کیا گیا ۔ اس کے علاوہ سورۂ نساء میں یہ مضامین بیان
ہوئے ہیں۔
(1) …والدین ،رشتہ داروں ،یتیموں ،مسکینوں ، قریبی اور
دور کے پڑوسیوں ،مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور بھلائی کرنے کا
حکم دیا گیا ۔
(2) …میراث کے احکام تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے۔
(3)… کن لوگوں کی توبہ مقبول ہے اور کن کی توبہ قبول
نہیں کی جائے گی۔
(4)… شوہر، بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق اور ازدواجی زندگی
کے رہنما اصول بیان کئے ہیں۔
(5)… مال اور خون میں مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے
احکام بیان کئے گئے ۔
(6) … کبیرہ گناہوں سے بچنے کی
فضیلت بیان کی گئی، حسد سے بچنے کا حکم دیا گیا نیز تکبر، بخل اور ریاکاری کی مذمت
بھی بیان کی گئی۔
(7) … جہاد کے بارے میں احکامات
بیان کئے گئے۔
(8) …قاتل کے بارے میں احکام،ہجرت کے بارے میں احکام اور
نمازِ خوف کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔
(9) …نیک اعمال کرنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کی تلقین
کی گئی ہے
(10) …اخلاقی اور ملکی معاملات کے اصول اور جنگ کے بعض
احکام بیان کئے گئے ہیں۔
(11) …منافقوں ، عیسائیوں اور بطور خاص یہودیوں کے خطرات
سے مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے۔
(12) …اس سورت کے آخر میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے
میں عیسائیوں کی گمراہیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
سورۂ نساء کی اپنے سے ماقبل
سورت ’’آلِ عمران ‘‘ کے ساتھ کئی طرح سے مناسبت ہے ،جیسے سورۂ آلِ عمران کے آخر میں مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار
کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور سورۂ نساء کے ابتداء میں تمام لوگوں کو اس چیز
کا حکم دیاگیا ہے۔ سورۂ آلِ عمران میں غزوۂ اُحد کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان
کیا گیا تھا اور اس سورت کی آیت نمبر 88میں بھی غزوۂ احد کا ذکر
ہے۔سورۂ آلِ عمران میں غزوۂ احد کے بعد ہونے والے غزوہ ، حمراء ُالاسد کا ذکر
ہے اور اس سورت کی آیت نمبر 104میں بھی اس غزوے کی طرف
اشارہ کیا گیا ہے۔ دونوں سورتوں میں یہودیوں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے
میں باطل نظریات کا رد کیا گیاہے۔(تناسق الدرر، سورۃ النساء، ص۷۶-۷۷)