Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 148 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا(148)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ:بری بات کا اعلان کرنااللہ پسند نہیں کرتا۔}ایک قول یہ ہے کہ بری بات کے اعلان سے مراد کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرنا ہے جیسے کسی کی غیبت کرنا یا کسی کی چغلی کھانا وغیرہ۔(جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۱۴۴)
یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی شخص کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بری بات کے اعلان سے مراد گالی دینا ہے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ص۲۶۱)
یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کوپسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو گالی دے۔
گالی دینا گناہ اور مسلمان کی شان سے بعید ہے۔ اس کے بارے میں 3 اَحادیث درج ذیل ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اسے گالی دیتا ہے۔ (شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، باب الستر، ۶ / ۴۸۹، الحدیث: ۳۴۱۲)
(2)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفرہے۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لا ترجعوا بعدی کفّاراً۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳۴، الحدیث: ۷۰۷۶)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: آپس میں گالی دینے والے دو آدمی جو کچھ کہیں تووہ (یعنی اس کا وَبال) ابتداء کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن السباب، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۸(۲۵۸۷))
بری بات کا اعلان اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پسند نہیں البتہ مظلوم کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کو بیان کرے، لہٰذا وہ چور یا غاصب کی نسبت کہہ سکتا ہے کہ اس نے میرا مال چرایایا غصب کیاہے۔ (جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۱۴۵)
اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا تھا اور انہوں نے اچھی طرح اس کی میزبانی نہ کی، جب وہ وہاں سے نکلا تو اُن کی شکایت کرتا ہوانکلا ۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۲۷۲)
اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق نازل ہوئی۔ ایک شخص سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان میں زبان درازی کرتا رہا، حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خاموش رہے مگر وہ باز نہ آیا تو ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کو جواب دیدیا، اس پر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ شخص مجھے برا بھلا کہتا رہا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کچھ نہ فرمایا اور میں نے ایک مرتبہ جواب دیا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھ گئے۔ ارشاد فرمایا ’’ ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا اور جب تم نے جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آگیا۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۱ / ۴۴۴)
پہلے یعنی مہمان نوازی والے شانِ نزول کو لیں تو اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوہا، ص۹۵۱، الحدیث: ۱۵(۱۷۲۶))
ظالم کے ظلم کو بیان کرنا جائز ہے:
آیت میں مظلوم کو ظلم بیان کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مظلوم، حاکم کے سامنے ظالم کی برائی بیان کر سکتا ہے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔ اس سے ہزارہا مسائل معلوم ہو سکتے ہیں۔ حدیث کے راویوں کا فسق یا عیب وغیرہ بیان کرنا، چور یا غاصب کی شکایت کرنا، ملک کے غداروں کی حکومت کو اطلاع دینا سب جائز ہے۔ غیبت کے جواز کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب کسی نہ کسی بڑے فائدے کی وجہ سے ہیں۔