Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 29 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(29)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔} نکاح کے ذریعے نفس میں تصرف کی وضاحت کے بعد اب مال میں تصرف کا شرعی طریقہ بیان کیا جا رہا ہے، اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱ / ۳۷۰)
اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
حرام کمانا اور کھانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں ،
(1)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ، ۲ / ۳۳، الحدیث: ۳۶۷۲)
(2)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، ۲ / ۸، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۲۵۷)
(3)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا: ’’اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۵(۱۰۱۵))
{اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ:مگریہ کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔} یعنی باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثرضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان ،مکان زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے۔ یاد رہے کہ مال کا مالک بننے کے تجارت کے علاوہ اور بھی بہت سے جائز اَسباب ہیں جیسے تحفے کی صورت میں ، وصیت یا وراثت میں مال حاصل ہو تو یہ بھی جائز مال ہے ۔ تجارت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ مالک بننے کی اختیاری صورت ہے۔
تجارت کے فضائلـ:
احادیث میں تجارت کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سچا اور امانت دار تاجر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایاہم، ۳ / ۵، الحدیث: ۱۲۱۲)
(2)… حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جو گفتگو کے وقت جھوٹ نہیں بولتے، وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہیں کرتے، جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت نہیں کرتے، جب کوئی چیز خریدیں تو اس کی برائی بیان نہیں کرتے اور جب کچھ بیچیں تو ا س کی تعریف نہیں کرتے، جب ان پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں پس و پیش نہیں کرتے اور جب انہوں نے کسی سے لینا ہو تو اس پر تنگی نہیں کرتے۔(در منثور، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۴۹۵)
(3)… حضرت رفاعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن تاجر فاسق اٹھائے جائیں گے سوا ئے اس تاجر کے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرے ،بھلائی کرے اور سچ بولے۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایاہم، ۳ / ۵، الحدیث: ۱۲۱۴)
(4)… حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس کے پاس اس کی روح قبض کرنے فرشتہ آیا تو اس سے کہا گیا: کیا تو نے کوئی نیکی کی ہے؟ وہ بولا: میں نہیں جانتا ۔اس سے کہا گیا :غور تو کر۔ کہنے لگا: اس کے سوا کچھ اور نہیں جانتا کہ میں دنیا میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور ان سے (اپنی رقم کا) تقاضا کرتا تو امیر کو مہلت دیتا تھا اور غریب کو معاف کر دیتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے فرشتو! اس سے درگزر کرو ۔(مسند امام احمد ،حدیث حذیفۃ بن الیمان، ۹ / ۹۸، الحدیث: ۲۳۴۱۳، مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۳، الحدیث: ۲۶(۱۵۶۰))
اس سے پہلے تجارت کے فضائل بیان کئے گئے اور ذیلی سطور میں تجارت کے 14 آداب بیان کئے گئے ہیں جن میں سے اکثر آداب ایسے ہیں جن پر عمل کرنا ہر تاجر کے لئے شرعا ًلازم ہے۔
(1)…تاجر کو چاہئے کہ وہ روزانہ صبح کے وقت اچھے ارادے یعنی نیتیں دل میں تازہ کرے کہ بازار اس لئے جاتا ہوں تاکہ حلال کمائی سے اپنے اہل وعیال کی شِکم پروری کروں اور وہ مخلوق سے بے نیاز ہو جائیں اور مجھے اتنی فراغت مل جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا رہوں اورراہِ آخرت پر گامزن رہوں۔ نیز یہ بھی نیت کرے کہ میں مخلوق کے ساتھ شفقت، خلوص اور امانت داری کروں گا، نیکی کا حکم دوں گا، برائی سے منع کروں گا اور خیانت کرنے والے سے باز پُرس کروں گا۔
(2)…تجارت کرنے والا جعلی اور اصلی نوٹوں کو پہچاننے کا طریقہ سیکھے اور نہ خود جعلی نوٹ لے نہ کسی اور کو دے تاکہ مسلمانوں کا حق ضائع نہ ہو ۔
(3)…اگر کوئی جعلی نوٹ دے جائے (اور دینے والے کا پتا نہ چلے) تو وہ کسی اور کو نہیں دینا چاہئے (اور اگر دینے والے کاپتا چل جائے تو اسے بھی وہ جعلی نوٹ واپس نہیں دینا چاہئے) بلکہ پھاڑ کے پھینک دے تاکہ وہ کسی اور کو دھوکہ نہ دے سکے۔
(4)…اپنے مال کی حد سے زیادہ تعریف نہ کرے کہ یہ جھوٹ اور فریب ہے اور اگر خریدار اس مال کی صفات سے پہلے ہی آگاہ ہو تو اس کی جائز اور صحیح تعریف بھی نہ کرے کہ یہ فضول ہے۔
(5)… عیب دار مال ہی نہ خریدے اگر خریدے تو دل میں یہ عہد کرے کہ میں خریدار کو تمام عیب بتا دوں گا اور اگر کسی نے مجھے دھوکہ دیا تو اس نقصان کو اپنی ذات تک محدود رکھوں گا دوسروں پر نہ ڈالوں گا کیونکہ جب یہ خود دھوکہ باز پر لعنت کر رہا ہے تو اپنی ذات کو دوسروں کی لعنت میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔
(6)…اگر اپنے پاس موجود صحیح مال میں کوئی عیب پیدا ہو گیا تو اسے گاہک سے نہ چھپائے ورنہ ظالم اور گناہگار ہو گا۔
(7)…وزن کرنے اور ناپنے میں فریب نہ کرے بلکہ پورا تولے اور پورا ناپے۔
(8)…اصل قیمت کو چھپا کر کسی آدمی کو قیمت میں دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔
(9)…بہت زیادہ نفع نہ لے اگرچہ خریدار کسی مجبوری کی وجہ سے اس زیادتی پر راضی ہو۔
(10)… محتاجوں کا مال زیادہ قیمت سے خریدے تاکہ انہیں بھی مسرت نصیب ہو جیسے بیوہ کا سُوت اور وہ پھل جو فقراء کے ہاتھ سے واپس آیا ہو کیونکہ اس طرح کی چشم پوشی صدقہ سے بھی زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
(11)…قرض خواہ کے تقاضے سے پہلے اس کا قرض ادا کر دے اور اسے اپنے پاس بلا کر دینے کی بجائے اس کے پاس جا کر دے۔
(12)…جس شخص سے معاملہ کرے ،اگر وہ معاملہ کے بعد پریشان ہو تو ا س سے معاملہ فسخ کر دے ۔
(13)…دنیا کا بازار اسے آخرت کے بازار سے نہ روکے اور آخرت کا بازار مساجد ہیں۔
(14)…بازار میں زیادہ دیر رہنے کی کوشش نہ کرے مثلا ًسب سے پہلے جائے اور سب کے بعد آئے۔(کیمیائے سعادت، رکن دوم در معاملات، اصل سوم آداب کسب، ۱ / ۳۲۶-۳۴۰، ملتقطاً)
{وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ:اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔} یعنی ایسے کام کر کے جو دنیا و آخرت میں ہلاکت کا باعث ہوں اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱ / ۳۷۰)
خود کو ہلاک کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ، اور ان میں سے 4 صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)… مسلمانوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنا خود کو ہلاک کرنا ہے کیونکہ احادیث میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے، جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم مسلمانوں کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوں گے چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار وغیرہ میں اس کا شریک ہوتا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبہائم، ۴ / ۱۰۳، الحدیث: ۶۰۱۱)
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان (باہم) ایک شخص کی طرح ہیں ، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶))
جب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا ایسا ہے جیسے ا س نے خود کو قتل کیا۔
(2)…ایسا کام کرنا جس کی سز امیں اسے قتل کر دیا جائے جیسے کسی مسلمان کو قتل کرنا، شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرنا یامُرْتَدْہونا بھی خود کو ہلاک کرنے کی صورتیں ہیں۔ یاد رہے کہ زنا کرنا اور کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گنا ہ ہے، زنا کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(بنی اسرائیل:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
اور کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(النساء:۹۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گااور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اورمُرْتَدْ ہونے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(بقرہ:۲۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
(3)… خود کو ہلاک کرنے کی تیسری صورت خود کشی کرنا ہے۔ خود کشی بھی حرام ہے ۔حدیث شریف میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے اپنا گلا گھونٹا تو وہ جہنم کی آگ میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جس نے خود کو نیزہ مارا وہ جہنم کی آگ میں خود کو نیزہ مارتا رہے گا۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قاتل النفس، ۴ / ۴۶۰، الحدیث: ۱۳۶۵)
ان ہی سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ گرتا رہے گا اور جو شخص زہر کھا کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا۔ جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کشی کی تو دوزخ کی آگ میں وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ اس سے اپنے آپ کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا ۔(بخاری، کتاب الطب، باب شرب السمّ والدواء بہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳، الحدیث: ۵۷۷۸)
(4)…ایسا کام کرناجس کے نتیجے میں کام کرنے والا دنیا یا آخرت میں ہلاکت میں پڑجائے جیسے بھوک ہڑتال کرنا یا باطل طریقے سے مال کھانا وغیرہ۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھے غزوۂ ذاتُ السلاسل کے وقت ایک سرد رات میں احتلام ہو گیا، مجھے غسل کرنے کی صورت میں ( سردی سے) ہلاک ہونے کا خوف لاحق ہوا تو میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ لی۔ انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اے عمرو! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ا س حال میں نماز پڑھ لی کہ تم جنبی تھے۔ میں نے غسل نہ کرنے کا عذر بیان کیا اور عرض کی :میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے:
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(النساء:۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
یہ سن کر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا دئیے اور کچھ نہ فرمایا۔(ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب اذا خاف الجنب البرد۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵۳، الحدیث: ۳۳۴)