Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 28 ≫ Translation ≫ Tafsir
یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْۚ-وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(28)
تفسیر: صراط الجنان
{یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ:اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی کرے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں پر آسانی چاہتا ہے اسی لئے انہیں نرم احکام عطا فرماتا ہے اور کئی جگہ رخصتیں عطا فرماتا ہے، لوگوں کی طاقت کے مطابق ہی انہیں حکم دیتا ہے اور ان کے فطری تقاضوں کی رعایت فرماتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے اوراسی فطری کمزوری کا یہ نتیجہ ہے کہ مرد عورت کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتا ہے، اس کے لئے عورت اور شہوت سے صبر دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرماتے ہوئے مردوں کے لئے عورتوں سے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے نفع اٹھانے کی اجازت دی اور صرف ان عورتوں سے منع کیا جن سے نفع اٹھانے میں فسادِ عظیم اور بڑے نقصان کا خدشہ تھا۔ اسی لئے مُتقی، پرہیزگار اور گناہوں کا تقاضا اور موقع موجود ہونے کے باوجود گناہوں سے بچ رہنے والے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بڑے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کیلئے اپنی کمزوری کا مقابلہ کیا اور اپنی خواہشات کو پس پشت ڈالا۔ ترغیب کیلئے ایک ایسے ہی متقی بزرگ کا واقعہ پیشِ خدمت ہے:
بصرہ میں ایک بزرگ مِسکی یعنی ’’مشک کی خوشبو میں بسا ہوا ‘‘ کے نام سے مشہور تھے، کسی نے بَاِ صْرار اس خوشبو سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’ میں کوئی خوشبو نہیں لگاتا، میرا قصہ بڑا عجیب ہے، میں بغدادِ معلیٰ کا رہنے والا ہوں ، جوانی میں بہت حسین وجمیل تھا اور صاحبِ شرم و حیاء بھی۔ ایک کپڑے والے کی دوکان پر میں نے ملازمت اختیار کی، ایک روز ایک بڑھیا آئی اور اس نے کچھ قیمتی کپڑے نکلوائے اور دوکاندار سے کہا: میں ان کپڑوں کو گھر لے جانا چاہتی ہوں ، اس نوجوان کو میرے ساتھ بھیج دیں ، جوکپڑے پسند آئیں گے وہ رکھ لیں گے پھر ان کی قیمت اور بقیہ کپڑے اس نوجوان کے ہاتھ بھیج دیں گے۔ چنانچہ مالک ِدکان کے کہنے پر میں بڑھیا کے ساتھ ہو لیا۔ وہ مجھے ایک عالیشان کوٹھی پر لے آئی اور مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان عورت کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا، پھر میرے قریب بیٹھ گئی، میں گھبرا کر نگاہیں نیچی کئے فورا ًوہاں سے ہٹ گیا مگر اس پر شہوت سوار تھی وہ میرے پیچھے پڑ گئی، میں نے بہت کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر ،وہ ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن وہ میرے ساتھ منہ کالا کرنے پر مُصِرّ تھی۔ میرے ذہن میں اس گناہ سے بچنے کی ایک تجویز آئی تو میں نے اس سے کہا: مجھے بیتُ الْخَلاء جانے دو، اس نے اجازت دے دی۔ میں نے بیت الخلاء میں جا کر دل مضبوط کر کے وہاں کی نجاست اپنے ہاتھ منہ اور کپڑوں پر مل لی، اب جوں ہی باہر آیا تو میری عاشقہ گھبرا کر بھاگی اور کوٹھی میں ’’پاگل، پاگل‘‘ کا شور اٹھا۔ میں نے وہاں سے بھاگ کر ایک باغ میں پناہ لی، غسل کیا اور کپڑے پاک کر کے وہاں سے چل دیا۔ رات جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ کوئی آیا ہے اور میرے چہرے اور لباس پر اپنا ہاتھ پھیر رہا ہے اور کہہ رہا ہے: مجھے جانتے ہو میں کون ہوں ؟سنو! میں جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میرے سارے بدن اور لباس میں خوشبو آ رہی تھی جو آج تک قائم ہے اور یہ سب حضرت سیدنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ کی برکت ہے۔(روض الریاحین،الحکایۃ السابعۃ عشرۃ بعد الاربع مائۃ، ص۳۳۴-۳۳۵)