Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 37 ≫ Translation ≫ Tafsir
الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا(37)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ:وہ لوگ جو خود بخل کرتے ہیں۔} لغتِ عرب میں بخل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جومال دیا اس میں سے سائل کو نہ دینا اور بخل کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جو چیز ذمہ میں واجب ہو اسے ادا نہ کرنا۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۳۳۹)
اور صدرُالاَفاضِل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بخل یہ ہے کہ خود کھائے دوسرے کو نہ دے۔ شُحْ یہ ہے کہ نہ کھائے نہ کھلائے۔ سَخایہ ہے کہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے ،جودیہ ہے کہ آپ نہ کھائے دوسرے کو کھلائے۔(خزائن العرفان، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۶۶، مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۲۲۷)
یہاں بخل سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توریت میں مذکور اوصاف بیان کرنے میں بخل کرنا اورا س کا حکم دینا۔ شانِ نزول: یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو توریت میں مذکورسیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف بیان کرنے میں بخل کرتے اور چھپاتے تھے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۳۷۹)
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد مال خرچ کرنے میں بخل کرنا ہے۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۷۸)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دو خصلتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں ،بخل اور بدخلقی۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی البخل، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۹)
تنبیہ: اس سے موجودہ زمانے کے ان علماء کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصافِ حمیدہ خود بھی بیان نہیں کرتے اور بیان کرنے والوں کو بھی طرح طرح کے حیلے بہانے کر کے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ذکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے
پھر کہے مَردَک کہ ہوں امت رسولُ اللہ کی
نوٹ:بخل کے بارے میں کافی تفصیل سورہ ٔآلِ عمران آیت180 میں گزر چکی ہے۔
{وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ:اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ جو نعمت عطا فرمائے اسے اچھی نیت کے ساتھ موقع محل کی مناسبت سے حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے ظاہر کرنا چاہیے۔ حضرت ابو الاحوص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میرے والد پَراگندہ بال اور ناپسندیدہ ہَیئت میں سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تیرے پاس مال نہیں ؟ عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال عطا فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کو جب کوئی نعمت عطا فرمائے تو اس کا اثر بندے پر دیکھنا پسند فرماتا ہے۔(مسند امام احمد، مسند المکیین، حدیث مالک بن نضلۃ ابی الاحوص رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۳۸۴، الحدیث: ۱۵۸۹۲)
مسئلہ:اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کا اظہار اخلاص کے ساتھ ہو تو یہ بھی شکر ہے اور اس لئے آدمی کو اپنی حیثیت کے لائق جائز لباسوں میں بہتر پہننا مستحب ہے۔