banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 38 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا(38)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کو خرچتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے اللہ اور نہ قیامت پر، اور جس کا مصاحب شیطان ہوا تو کتنا برا مصاحب ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ ہی آخرت کے دن پر (تو ان کے لئے شدید وعید ہے۔) اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو کتنا برا ساتھی ہوگیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ: اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔} بخل کی برائی بیان فرمانے کے بعد اب ان لوگوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ جو محض دکھاوے اور شہرت کے لئے مال خرچ کرتے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کا حصول ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ یہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں جو اوپر گزرا۔

ریا کاری کی مذمت:

اس سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئے کہ جو نیک کاموں میں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن مقصد صرف واہ واہ کروانا ہوتا ہے، بکثرت خیرات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ شرط رکھتے ہیں کہ اخبار میں خبر اور تصویر ضرور آنی چاہیے، اسی طرح شادیوں کی فضول رسومات میں لاکھوں روپے اڑا دینے والے بھی عبرت حاصل کریں جو صرف اس لئے رسمیں کرتے ہیں کہ اگر یہ رسمیں بھر پور انداز میں نہ کی گئیں ،تو لوگ کیا کہیں گے، فلاں نے اتنا خرچ کیا تھا، میں کیوں پیچھے رہوں وغیرہ ۔حضرت محمود بن لُبَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھے تم پر سب سے زیادہ شرکِ اصغر یعنی دکھاوے میں مبتلا ہونے کا خوف ہے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو ان کے حساب کے وقت ارشاد فرمائے گا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لئے دنیا میں تم دکھاوا کرتے تھے اور دیکھو کہ کیا تم ان کے پاس کوئی جزا پاتے ہو؟ (مسند امام احمد، حدیث محمود بن لبید رضی اللہ عنہ، ۹ / ۱۶۱، الحدیث: ۲۳۶۹۷)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے،اللہ تعالیٰ نے یہ وادی اُمتِ محمدیہ کے ان ریاکاروں کے لئے تیار کی ہے جو قرآنِ پاک کے حافظ،راہِ خدامیں  صدقہ کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے گھر کے حاجی اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے (لیکن یہ سارے کام صرف ریاکاری کیلئے کررہے ہوں گے۔ ) (معجم الکبیر، الحسن عن ابن عباس، ۱۲ / ۱۳۶، الحدیث: ۱۲۸۰۳)۔([1])

{وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا:اورجس کا ساتھی شیطان بن جائے۔} دنیا میں شیطان کا ساتھی اس طرح ہو گا کہ وہ شیطانی کام کر کے اسے خوش کرے کیونکہ جو شیطان کو خوش کرتا ہے شیطان اس کے ساتھ رہتا ہے حتّٰی کہ کھانے پینے ، رات بسر کرنے اور دیگر کئی معاملات میں شریک ہو جاتا ہے اسی لئے یہ حکم ہے کہ ہر جائز کام بِسْمِ اللہْ پڑھ کر شروع کیا جائے تاکہ شیطان کے لئے روک ہو اورا ٓخرت میں شیطان کا ساتھی ہونا یوں ہوگا کہ وہ ایک شیطان کے ساتھ آتشی زنجیر میں جکڑا ہو گا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱ / ۳۷۹)

یہ وعید خاص گناہوں کے ذریعے شیطان کا ساتھی بننے والے کے بارے میں ہے اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ اپنے انجام پر خود ہی غور کرلے کہ کیساہو گا۔

شیطان کے بہکانے کاانداز:

شیطان مختلف انداز سے انسان کو بہکانے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و فرمانبرداری کرنے سے روکتا ہے جیسے شیطان پہلے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طاعت و عبادت سے روکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ انسان کو شیطان سے محفوظ کر لیتا ہے تو انسان شیطان کویہ کہہ کر دور کر دیتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طاعت و عبادت کی بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ مجھے ا س دارِ فانی سے آخرت کے لئے توشہ اور زادِ راہ تیار کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر آخرت کا سفر ممکن نہیں۔

جب انسان شیطان کے اس مکر سے بچ جاتا ہے تو شیطان اسے اس طرح بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اسے عبادت کرنے میں کاہلی اور سستی کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آج رہنے دو کل کر لینا۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس سے بھی محفوظ کر لیتا ہے تو وہ شیطا ن کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے کہ میری موت میرے قبضے میں نہیں ،نیز اگر میں آج کا کام کل پر چھوڑوں گا تو کل کا کام کس دن کروں گا کیونکہ ہر دن کے لئے ایک کام ہے۔

جب شیطان اس حیلے سے بھی ناامید ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے انسان! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت جلدی جلدی کرو تاکہ فلاں فلاں کام کے لئے فارغ ہو سکو۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس حیلے سے بھی بچا لے تو انسان شیطان کو یہ کہہ کر دفع کر دیتا ہے کہ تھوڑی اور کامل عبادت زیادہ مگر ناقص عبادت سے کہیں بہتر ہے۔

اگر شیطان اس حیلے میں بھی ناکام و نامراد ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنے کی ترغیب دیتا اور اسے ریاکاری میں مبتلا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس حیلے سے محفوظ ہوگیا تو وہ یہ کہہ کر ریا کاری کے وسوسے کو ٹھکرا دیتا ہے کہ میں کسی اور کی نمائش اور دکھاوے کے لئے عبادت کیوں کروں ، کیا اللہ تعالیٰ کا دیکھ لینا میرے لئے کافی نہیں۔

جب شیطان اپنے اس ہتھکنڈے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو خود پسندی میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے کتنا عمدہ کام کیا اور تم نے کتنی زیادہ شب بیداری کی۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بار بھی محفوظ رہا اور خود پسندی میں مبتلاء ہونے سے بچ گیا تو وہ شیطان کے اس وسوسے کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ مجھ میں کوئی خوبی اور بزرگی نہیں ،یہ تو سب اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ ا س نے مجھ جیسے گناہگار کو خاص توفیق عطا فرمائی اور یہ بھی اسی کا فضل و کرم ہے کہ ا س نے میری حقیر اور ناقص عبادت کو شرف قبولیت عطا فرمایا، اگر ا س کا فضل و کرم شامل حال نہ ہوتا تو میرے گناہوں کے مقابلے میں میری ان عبادتوں کی حیثیت ہی کیا تھی۔

جب لعین شیطان ان تمام تدبیروں سے ناکام ہو جاتا ہے تو پھر یہ حَربہ استعمال کرتا ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہے اور شیطان کے اس حربے سے بہت عقلمند اور ہوشیار دل شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں بچ سکتا، چنانچہ شیطان کہتا ہے کہ اے نیک بخت انسان ! تم لوگوں سے چھپ چھپ کر نیکیاں کرنے میں کوشاں ہو اوراللہ تعالیٰ تمہاری ان نیکیوں کو عنقریب تمام لوگوں میں مشہور کر دے گا تو لوگ تمہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ کہہ کر یاد کیا کریں گے۔ اس طرح شیطان اسے ریا کاری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و عنایت سے انسان کو شیطان کے اس حربے سے بھی محفوظ فرما دے تو وہ شیطان کو یہ کہہ کر ذلیل و خوار اور نامراد کر دیتا ہے کہ اے ملعون! ابھی تک تو تو میرے پاس میرے اعمال کو فاسد و بے کار کرنے آیا کرتا تھا اور اب ان اعمال کی اصلاح و درستی کے لئے آتا ہے تاکہ میرے اعمال کو بالکل ختم کر دے ،چل دفع ہو جا، میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو ں ، وہی میرا آقا و مولیٰ ہے، میں اپنی نیکیوں کی شہرت کا مشتاق اور طلبگار نہیں ہوں ، میرا پروردگار چاہے میرے اعمال ظاہر و مشہور کر دے چاہے پوشیدہ رکھے، چاہے مجھے عزت و مرتبہ عطا فرمائے چاہے مجھے ذلیل و رسوا کر دے ۔سب کا سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، مجھے ا س کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے میرے اعمال کا اظہار فرمائے یا نہ فرمائے۔ انسانوں کے قبضے میں کوئی چیز نہیں ہے۔

اگر انسان شیطان کے اس وار سے بھی بچ جائے تو وہ انسان کے پاس آ کر کہتا ہے کہ تجھے اعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ انسان کے نیک اور بد ہونے کا فیصلہ تو روزِ اول میں ہو چکا ہے ،اس دن جو برا ہو گیا وہ برا ہی رہے گا اور جو اچھا اور نیک ہو گیاوہ نیک ہی رہے گا اس لئے اگر تجھے نیک بخت پیدا کیا گیا ہے تو اعمال کو چھوڑنا تمہارے لئے نقصان دہ نہیں اور اگر تجھے بدبخت و شقی پیدا کیاگیا ہے تو تمہارا عمل تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے انسان کو شیطان کے اس وار سے بچا لیا تو انسان شیطان مردود سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ میں تواللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور بندے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے احکام بجا لائے اور اللہ تعالیٰ سارے جہان کا پروردگار ہے، جو چاہتا ہے حکم کرتا اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ یقینا اعمال میرے لئے فائدہ مند ہیں کسی صورت میں بھی نقصان دہ نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے علم میں نیک بخت ہوں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ ثواب کا محتاج ہوں اور اگر خدانخواستہ علمِ الٰہی میں میرا نام بدبختوں میں ہے تو بھی عبادت کرنے سے اپنے آپ پر ملامت تو نہیں کروں گا کہ اللہتعالیٰ مجھے طاعت و عبادت کرنے پر سزا نہ دے گا اور کم از کم اتنا تو ضرور ہے کہ نافرمان ہو کر دوزخ میں جانے سے فرمانبردار ہو کر دوزخ میں جانا بہتر ہے اور پھر یہ کہ سب محض اِحتِمالات ہیں ورنہ ا س کاوعدہ بالکل حق ہے اور ا س کا فرمان بالکل سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے طاعت و عبادت پر ثواب عطافرمانے کا بے شمار مقامات پر وعدہ فرمایا ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایمان اور طاعت کے ساتھ حاضر ہو گا وہ ہر گز ہر گز جہنم میں داخل نہ ہو گا بلکہ اللہ  تعالیٰ کے فضل و کرم اورا س کے سچے و مقدس وعدے کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔

لہٰذا (اے لوگو!) تم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاؤ، شیطان کے حیلوں سے ہوشیار رہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہو اور شیطان مردود سے اسی کی پناہ مانگتے رہو کیونکہ تمام معاملات اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور وہی توفیق عطا فرمانے والا ہے، گناہوں سے بچنے اور طاعت و عبادت کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ملتی ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص۶۱-۶۲)


1…ریاکاری کے بارے میں مفید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’ریاکاری‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔