Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 64 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(64)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔} یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود گناہوں کے مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الہٰی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے۔} آیت کے اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو سَرورِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کی بارگاہ میں آجائیں کہ یہ بارگاہ، رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ ہے، یہاں کی رضا، رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہے اور یہاں کی حاضری، رب ِ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی حاضری ہے، یہاں آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ حبیب ِ ربُّ العٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھی شفاعت کیلئے عرض کریں اور نبی مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے سفارش فرما دیں تو ان لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت و مغفرت کی بارشیں برسنا شروع ہوجائیں گی اور اس پاک بارگاہ میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہوجائیں گے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ قال تعالٰی:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
حضور کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا، اب حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ ،حضور سے تَوَسُّل، فریاد، اِستِغاثہ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔ مولانا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْبَارِی شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ‘‘ ترجمہ : نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔(فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۶۵۴)
یاد رہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے۔ چنانچہ ذیل میں ا س سے متعلق چند واقعات ملاحظہ ہوں :
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر گناہوں کی معافی چاہنے کے 3 واقعات:
(1)…حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا: اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چنانچہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۳-۱۴، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۱۹۰)
(2)… بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسابستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ گدا یہاں کیوں ہے؟ عرض کی: میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے خریدا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا: جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲ / ۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵)
(3)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یارسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے۔ چنانچہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کوواجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے۔(معجم الکبیر، ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۹، الحدیث: ۱۴۲۳)
مزار پر انوار پر حاضر ہو کر حاجتیں اور مغفرت طلب کرنے کے5واقعات:
حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے۔چنانچہ
(1)…امیر المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرما دیجئے وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا: تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔ حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا: یا رب !عَزَّوَجَلَّ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷ / ۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۷۴، الجزء الرابع)
(2)…ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالٰی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)
(3)…بادشاہ ابو جعفرمنصور نے حضرت امام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسے ( ڈانٹتے ہوئے) کہا: اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’تم اپنی آوازوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔‘‘ بے شک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا: اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف متوجہ ہو کر؟ فرمایا: تم کیوں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شفاعت مانگو پھر اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی۔۔۔ الخ، ص۴۱، الجزء الثانی)
(4)…مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا: جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور حاضر ہوا ہوں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔(مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)
(5)… حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو آپ نے فرمایا، ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا ،اس میں یہ آیت بھی ہے’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا‘‘ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۳۶)
الغرض یہ آیت ِ مبارکہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں۔ چنانچہ’’حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں :
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا:
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
اور فرمایا:
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
آیت’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے 4باتیں معلوم ہوئیں۔
(1)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے۔
(2)…قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’جَآءُوْكَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے۔
(3)… بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔
(4)… مقبولانِ بارگاہِ الہٰی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔