Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 65 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(65)
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَا وَ رَبِّكَ: تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم۔}اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مدینہ پہاڑ سے آنے والے پانی سے باغوں میں آبپاشی کرتے تھے۔ وہاں ایک انصاری کا حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے جھگڑا ہوا کہ کون پہلے اپنے کھیت کو پانی دے گا۔ یہ معاملہ حبیب ِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حضور پیش کیا گیا۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، اے زبیر! تم اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہلے پانی کی اجازت اس لئے دی گئی کہ ان کا کھیت پہلے آتا تھا، اس کے باوجود سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انصاری کے ساتھ بھی احسان کرنے کا فرما دیا لیکن مجموعی فیصلہ انصاری کو ناگوار گزرا اور اس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ باوجود اس کے کہ فیصلہ میں حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو انصاری کے ساتھ احسان کی ہدایت فرمائی گئی تھی لیکن انصاری نے اس کی قدر نہ کی تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ اپنے باغ کو سیراب کرکے پانی روک لو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اشار الامام بالصلح۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۱۵، الحدیث: ۲۷۰۸)
اور بتادیا گیا کہ حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنا فرضِ قطعی ہے۔ جو شخص تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، ایمان کا مدار ہی اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنے پر ہے۔
آیت’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت ِ مبارکہ سے 7 مسائل معلوم ہوئے:
(1)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رب ہونے کی نسبت اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف فرمائی اور فرمایا اے حبیب! تیرے رب کی قسم۔ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم شان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پہچان اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے سے کرواتا ہے۔
(2)…حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ماننا فرض قرار دیا اور اس بات کو اپنے رب ہونے کی قسم کے ساتھ پختہ کیا۔
(3)…حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ماننے سے انکار کرنے والے کو کافر قرار دیا۔
(4)…تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حاکم ہیں۔
(5)…اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی حاکم ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی البتہ دونوں میں لامُتَناہی فرق ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی صفات جواللہ تعالیٰ کیلئے استعمال ہوتی ہیں اگر وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے استعمال کی جائیں تو شرک لازم نہیں آتا جب تک کہ شرک کی حقیقت نہ پائی جائے۔
(6)…رسو لِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم دل و جان سے ماننا ضروری ہے اور اس کے بارے میں دل میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ اسی لئے آیت کے آخر میں فرمایا کہ پھر اپنے دلوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے متعلق کوئی رکاوٹ نہ پائیں اور دل و جان سے تسلیم کرلیں۔
(7)…اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی احکام کا ماننا فرض ہے اور ان کو نہ ماننا کفر ہے نیز ان پر اعتراض کرنا، ان کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو کافروں کے قوانین کو اسلامی قوانین پرفَوْقِیَّت دیتے ہیں۔