banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 66 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًا(66)وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّاۤ اَجْرًا عَظِیْمًا(67)وَّ لَهَدَیْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا(68)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو یا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر وہ کرتے جس بات کی انہیں نصیحت دی جاتی ہے تو اس میں ان کا بھلا تھا اور ایمان پر خوب جمنا ۔ اور ایسا ہوتا تو ضرور ہم انہیں اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتے ۔ اور ضرور ان کو سیدھی راہ کی ہدایت کرتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو یا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر وہ ہر وہ کام کرلیتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو ان کے لئے بہت بہتراورثابت قدمی کا ذریعہ ہوتا۔ اور ایسا ہوتا تو ہم ضرور انہیں اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب عطا فرماتے۔ اور ہم انہیں ضرور سیدھے راستے کی ہدایت دیتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ: اور اگر ہم ان پر فرض کردیتے۔} یہاں مخلص و منافق سب کے اعتبار سے فرمایا جارہا ہے کہ اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرویا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے جیسا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکل جانے اور توبہ کے لئے اپنے آپ کو قتل کا حکم دیا تھا۔ اس آیت کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شَماس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ایک یہودی نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر خود کو قتل کرنا اور گھر بار چھوڑ نا فرض کیا تھا، ہم اس کو بجالائے تھے۔ اس پر حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم پر فرض کرتا تو ہم بھی ضرور بجالاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر طبری، النساء، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۱۶۳)

            کہ یہ کہنا تو آسان ہے لیکن اگر واقعی ایسا حکم دیدیا جاتا تو ایک بڑی تعداد اس حکم پر عمل نہ کرتی۔ اس میں بطورِ خاص منافقین یا نئے نئے مسلمان ہونے والے داخل ہوں گے جیسے منافقین اکثر جہاد سے فرار کی راہ ہی اختیار کرتے تھے اور نئے نئے مسلمان ہونے والے بھی کئی جنگوں میں ثابت قدم نہ رہ سکے۔ جہاں تک مُخلِصین یعنی جلیلُ القدر صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا تعلق ہے تو کتنے ہی صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایسے ہیں جنہوں نے مختلف جنگوں میں خود کو سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے آگے کھڑا کردیا اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کردیں۔ مزید فرمایا کہ اگر تمہیں خود کو قتل کرنے یا اپنے گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا تو تم میں سے تھوڑے لوگ ہی کرتے لیکن اگر وہ ہر اُس حکم پر عمل کریں جو انہیں دیا جائے خواہ خود کو جان سے ماردینے کا ہو یا گھروں سے نکل جانے کا بہرصورت یہ ان کیلئے بہت بہتر ہوتا اور ایمان پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہوتا اور اس پر ہم انہیں عظیم اجروثواب عطا فرماتے اور انہیں صراط ِ مستقیم کی اعلیٰ درجے کی ہدایت عطا فرماتے۔