banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 71 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا(71)

ترجمہ: کنزالایمان اے ایمان والو ہوشیاری سے کام لوپھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خُذُوْا حِذْرَكُمْ: ہوشیاری سے کام لو۔}اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے احکام سے محروم نہیں رکھا بلکہ ہر جگہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتے دار، پڑوسی، اپنے بیگانے سب کے متعلق واضح ہدایات عطا فرمائیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بھلائی کیلئے ہمیں ہوشیار رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرح دشمنوں کے مقابلے میں بھی ہوشیاری اور سمجھداری سے کام لو، دُشمن کی گھات سے بچو اور اُسے اپنے اوپر موقع نہ دو اور اپنی حفاظت کا سامان لے رکھو پھر موقع محل کی مناسبت سے دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔ یعنی جہاں جو مناسب ہو امیر کی اطاعت میں رہتے ہوئے اور تجربات و عقل کی روشنی میں مفید تدبیریں اختیار کرو۔ یہ آیت ِ مبارکہ جنگی تیاریوں ، جنگی چالوں ، دشمنوں کی حربی طاقت کے اندازے لگانے، معلومات رکھنے، ان کے مقابلے میں بھرپور تیاری اور بہترین جنگی حکمت ِ عملی کے جملہ اصولوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسباب کا اختیار کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ بغیر اسباب لڑنا مرنے کے مُتَرادِف ہے، تَوَکُّل ترک ِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرکے امیدیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے وابستہ کرنے کا نام ہے۔

جنگی تیاریوں سے متعلق ہدایات:

جنگی تیاری کیلئے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ہدایا ت ملاحظہ فرمائیں:

 (1)… حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ( اس آیت)’’وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ‘‘ اور ان کے لئے تیار رکھو جو قوت تم سے بن پڑ ے ۔ (کی تفسیر میں ) فرمایا ’’خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے، خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے، خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۰۶۱، الحدیث: ۱۶۷(۱۹۱۷))

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین سے ،اپنے مال، ہاتھ اور زبان سے جہاد کرو ( یعنی دینِ حق کی اشاعت میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ)(نسائی، کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد، ص۵۰۳، الحدیث: ۳۰۹۳)

(3)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ایک تیر کے بدلے تین افراد کو جنت میں داخل فرمائے گا (1) ثواب کی نیت سے تیر بنانے والے کو (2) تیر پھینکنے والے کو (3) تیر پکڑوانے والے کو۔ اور تیر اندازی اور گھڑ سواری میں مقابلہ کیا کرو، تمہارا تیر اندازی میں مقابلہ کرنا شَہسواری میں مقابلہ کرنے سے زیادہ مجھے پسند ہے اور جو تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے غفلت کرتے ہوئے چھوڑ دے تو اس نے ایک نعمت کو گنوا دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرمی، ۳ / ۱۹، الحدیث: ۲۵۱۳)

(4)… حضرت عمر بن خطاب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اہلِ شام کو خط لکھا کہ اپنی اولاد کو تیراکی اور گھڑ سواری سکھاؤ۔ (در منثور، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۸۶)