Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 95 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةًؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا(95)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ: عذر والوں کے علاوہ جو مسلمان جہاد سے بیٹھے رہے وہ برابر نہیں۔} اس آیت میں جہاد کی ترغیب ہے کہ بیٹھ رہنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں بلکہ مجاہدین کے لیے بڑے درجات و ثواب ہیں ، اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ بیماری یا بڑھاپے یا ناطاقتی یا نابینائی یا ہاتھ پاؤں کے ناکارہ ہونے اور عذر کی وجہ سے جہاد میں حاضر نہ ہوں وہ فضیلت سے محروم نہ کئے جائیں گے جبکہ اچھی نیت رکھتے ہوں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جب اس آیت کاپہلا حصہ نازل ہوا کہ مجاہدین اور غیر مجاہدین برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو نابیناصحابی تھے عرض کرنے لگے کہ’’یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نابینا ہوں ، جہاد میں کیونکر جاؤں اس پر آیت ’’غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ‘‘ نازل ہوئی یعنی معذوروں کو مُستثنیٰ کر دیا گیا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قول اللہ: لا یستوی القاعدون۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۸۳۲)
اور بخاری شریف میں ہی حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت ) فرمایا: کچھ لوگ مدینہ میں رہ گئے ہیں ہم کسی گھاٹی یا آبادی میں نہیں چلتے مگر وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ، انہیں عذر نے روک لیا ہے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من حبسہ العذر عن الغزو، ۲ / ۲۶۵، الحدیث: ۲۸۳۹)
اس سے معلوم ہوا کہ نیت بہت عظیم عمل ہے کہ حقیقتاً عمل کئے بغیر بھی سچی نیت ہونے کی صورت میں ثواب مل جاتا ہے۔ ہاں یہ ہے جو عذر کی وجہ سے جہاد میں حاضر نہ ہوسکے اگر چہ وہ نیت کا ثواب پائیں گے لیکن جہاد کرنے والوں کو عمل کی فضیلت اس سے زیادہ حاصل ہے۔ راہِ خدا میں جان و مال خرچ کرنے کی کتنی عظیم فضیلت ہے اس کیلئے ذیل کی 4احادیث کو ملاحظہ فرمائیں:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی گئی : یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،لوگوں میں سے کون سا شخص افضل ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتاہے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب افضل الناس مؤمن یجاہد بنفسہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۴۹، الحدیث: ۲۷۸۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :کیا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہا دکے برابر بھی کوئی عبادت ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم ا س کی اِستِطاعت نہیں رکھتے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے سوال پھر دھرایا، یا تین بار پوچھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہر بار فرمایا کہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ تیسری بار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا جہاد سے واپسی تک اس شخص کی طرح ہے جو روزے دار ہو، قیام کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر عمل کرنے والا ہو، روزے اور نماز سے تھکتا یا اُکتاتا نہ ہو ۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالٰی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۰(۱۸۷۸))
(3)…حضرت خُریم بن فاتک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ خرچ کیا اس کے لئے سات سوگناثواب لکھا جاتا ہے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل النفقۃ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۳، الحدیث: ۱۶۳۱)
…(4)حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی راہ میں(نکل کر)ذکر کرنے کا ثواب مال خرچ کرنے سے سات لاکھ گُنا زیادہ ہے۔(مسند امام احمد، مسند المکیین، حدیث معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ۵ / ۳۱۴، الحدیث: ۱۵۶۴۷)