banner image

Home ur Surah An Noor ayat 2 Translation Tafsir

اَلنُّوْر

An Noor

HR Background

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(2)

ترجمہ: کنزالایمان جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان جوزنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مردہو تو ان میں ہر ایک کو سوسو کوڑے لگاؤ اوراگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو توتمہیں اللہ کے دین میں ان پر کوئی ترس نہ آئے اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ: جو زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد ہو۔} اس آیت سے  اللہ تعالیٰ نے حدود اور احکام کا بیان شروع فرمایا، سب سے پہلے زنا کی حد بیان فرمائی اور حُکّام سے خطاب فرمایا کہ جس مرد یا عورت سے زنا سرزد ہو تو اس کی حدیہ ہے کہ اسے سو کوڑے لگاؤ۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۶۸)

 غیر مُحْصَنْ زانی کی سزا:

            یاد رہے کہ حد ایک قسم کی سزا ہے جس کی مقدار شریعت کی جانب سے مقرر ہے کہ اُس میں  کمی بیشی نہیں  ہوسکتی اوراس سے مقصودلوگوں  کو اس کام سے باز رکھنا ہے جس کی یہ سزا ہے۔(درمختار مع ردالمحتار، کتاب الحدود، ۶ / ۵)اوراس آیت میں  بیان کی گئی زنا کی حد آزاد، غیر مُحْصَنْ کی ہے کیونکہ آزاد،مُحْصَنْ کا حکم یہ ہے کہ اسے رَجم کیا جائے جیسا کہ حدیث شریف میں  وارد ہے کہ حضرت ماعِز رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے رجم کیا گیا۔(بخاری ، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ ، باب ہل یقول الامام للمقرّ : لعلّک لمست او غمزت ، ۴ /   ۳۴۲ ، الحدیث: ۶۸۲۴)

            مُحْصَنْ وہ آزاد مسلمان ہے جو مُکَلّف ہواور نکاحِ صحیح کے ساتھ خواہ ایک ہی مرتبہ اپنی بیوی سے صحبت کرچکا ہو۔ ایسے شخص سے زنا ثابت ہو تو اسے رجم کیا جائے گا اور اگر ان میں  سے ایک بات بھی نہ ہو مثلاً آزادنہ ہو یا مسلمان نہ ہو یا عاقل بالغ نہ ہو یا اس نے کبھی اپنی بیوی کے ساتھ صحبت نہ کی ہو یا جس کے ساتھ صحبت کی ہو اس کے ساتھ نکاح فاسد ہوا ہو تو یہ سب غیرمُحْصَنْ میں  داخل ہیں  اور زنا کرنے کی صورت میں  ان سب کا حکم یہ ہے کہ انہیں  سو کوڑے مارے جائیں۔

زنا کی حد سے متعلق3شرعی مسائل:

             یہاں  آیت میں  ذکر کی گئی حد سے متعلق 3 اَہم شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ۔

(1)…زنا کا ثبوت یا تو چار مَردوں  کی گواہیوں  سے ہوتا ہے یا زنا کرنے والے کے چار مرتبہ اقرار کرلینے سے۔ پھربھی حاکم یا قاضی بار بار سوال کرے گا اور دریافت کرے گا کہ زنا سے کیا مراد ہے؟ کہاں  کیا؟کس سے کیا؟کب کیا؟ اگر ان سب کو بیان کردیا تو زنا ثابت ہوگا ورنہ نہیں  اور گواہوں  کو صَراحتاً اپنا معائنہ بیان کرنا ہوگا، اس کے بغیر ثبوت نہ ہوگا۔

(2)… مرد کو کوڑے لگانے کے وقت کھڑا کیا جائے اور تہبندکے سوا اس کے تمام کپڑے اتار دیئے جائیں  اورمُتَوَسَّط درجے کے کوڑے سے اس کے سر، چہرے اور شرم گاہ کے علاوہ تمام بدن پر کوڑے لگائے جائیں  اورکوڑے اس طرح لگائے جائیں  کہ اَلَم یعنی درد گوشت تک نہ پہنچے۔ عورت کو کوڑے لگانے کے وقت نہ اسے کھڑا کیا جائے، نہ اس کے کپڑے اتارے جائیں  البتہ اگر پوستین یا روئی دار کپڑے پہنے ہوئے ہو تو وہ اتار دیئے جائیں ۔ یہ حکم آزاد مرد اور عورت کا ہے جبکہ باندی غلام کی حد اس سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہیں  جیسا کہ سورۂ نساء میں  مذکور ہوچکا۔

 (3)…لِواطَت زنا میں  داخل نہیں  لہٰذا اس فعل سے حد واجب نہیں  ہوتی لیکن تعزیر واجب ہوتی ہے اور اس تعزیر میں  صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے چند قول مروی ہیں ۔ (1)آگ میں  جلا دینا۔(2)غرق کر دینا۔ (3)بلندی سے گرانا اور اوپر سے پتھر برسانا۔ فاعل و مفعول یعنی لواطت کا فعل کرنے اور کروانے والے دونوں  کا ایک ہی حکم ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۲، ص۵۴۲-۵۴۳)

            نوٹ:زنا کی حد سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے بہارِ شریعت جلد 2حصہ9سے ’’حدود کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{وَ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ: تمہیں  ان پر کوئی ترس نہ آئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایمان والوں  پر لازم ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں  انتہائی سخت ہوں  اورا س کی نافذ کردہ حدود کوقائم کرنے میں  کسی طرح کی نرمی سے کام نہ لیں  کہ کہیں  ا س کی وجہ سے حدنافذ کرنا ہی چھوڑ دیں  یا اس میں  تخفیف کرنا شروع کر دیں ۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۶۹)

حدود نافذ کرنے کے معاملے میں  مسلم حکمرانوں  کے لئے شرعی حکم:

            اس آیت میں  اور اس کے علاوہ کثیر اَحادیث میں  مسلم حکمرانوں  کو حکم دیا گیا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جرائم کی جو سزائیں  مقرر کی ہیں  وہ انہیں  سختی سے نافذ کریں ، چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قریب و بعید سب میں  قائم کرو اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم بجا لانے میں  ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں  نہ روکے۔(ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۲۵۴۰)

          اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(اے حاکمو!)! عزت داروں  کی لغزشیں معاف کر دو، مگر حدود( کہ ان کو معاف نہیں  کرسکتے۔)(ابوداؤد، کتاب الحدود، باب فی الحدّ یشفع فیہ، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۴۳۷۵)

            اُمُّ  المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ عورت نے چوری کی تھی، جس کی وجہ سے قریش کو فکر پیدا ہوگئی (کہ اس کو کس طرح سزا سے بچایا جائے۔) آپس میں  لوگوں  نے کہا کہ اس کے بارے میں  کون شخص رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سفارش کرے گا؟ پھرلوگوں  نے کہا،حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کے سوا جو کہ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے محبوب ہیں ، کوئی شخص سفارش کرنے کی جرأت نہیں  کرسکتا، غرض حضرت اسامہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے سفارش کی، اس پر حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تو حد کے بارے میں  سفارش کرتا ہے !پھر حضورپُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اس خطبہ میں  یہ فرمایا کہ ’’اگلے لوگوں  کو اس بات نے ہلاک کیا کہ اگر اُن میں  کوئی شریف چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اُس پر حد قائم کرتے، خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت ِمحمد صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چوری کرتی تو میں  اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۵۶-باب، ۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۵)

             اس آیت اور روایات سے اِقتدار کی مَسنَدوں  پر فائز ان مسلمانوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو  اللہ تعالیٰ کی حدوں  کو قائم کرنے کی بجائے الٹا ان میں  تبدیلیاں  کرنے کی کوششوں  میں  مصروف ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  عقل ِسلیم عطا فرمائے۔

{وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ: اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں  کا ایک گروہ موجود ہو۔} یعنی جب زنا کرنے والوں  پر حد قائم کی جارہی ہو تو ا س وقت مسلمانوں  کا ایک گروہ وہاں  موجود ہو تاکہ زنا کی سزا دیکھ کر انہیں  عبرت حاصل ہو اور وہ اس برے فعل سے باز رہیں ۔

زنا کی مذمت:

            زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ قرآنِ مجیدمیں  ا س کی بہت شدید مذمت کی گئی ہے،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا‘‘(بنی اسراءیل:۳۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًا‘‘(فرقان:۶۸ ،۶۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ  کے ساتھ کسی دوسرے  معبود کی عبادت نہیں  کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں  کرتے جسے  اللہ  نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں  کرتے اور جو یہکام کرے گاوہ سزا پائے گا۔اس کے لئے قیامت کے دن عذاب بڑھادیا جائے گا اور ہمیشہ اس میں  ذلت سے رہے گا۔

            نیز کثیر اَحادیث میں  بھی زنا کی بڑی سخت مذمت و برائی بیان کی گئی ہے، یہاں  ان میں  سے6اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

 (1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے اور جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء لا یزنی الزانی وہو مؤمن، ۴ / ۲۸۳، الحدیث: ۲۶۳۴)

(2)…حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس قوم میں  زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں  گرفتار ہوگی اور جس قوم میں  رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں  گرفتار ہوگی۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث، ۲ / ۶۵۶، الحدیث: ۳۵۸۲)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا’’جس بستی میں  زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو انہوں  نے اپنے لیے  اللہ تعالیٰ کے عذاب کو حلال کرلیا۔(مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ فقد احلّوا بانفسہم عذاب اللّٰہ، ۲ / ۳۳۹، الحدیث: ۲۳۰۸)

(4)…حضرت عثمان بن ابو العاص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ آدھی رات کے وقت آسمانوں  کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ،پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ’’ہے کوئی دعا کرنے والا کہ ا س کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے۔اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۳۳، الحدیث: ۲۷۶۹)

(5)…حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے صحابۂ  کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا’’زنا کے بارے میں  تم کیا کہتے ہو؟ انہوں  نے عرض کی:زنا حرام ہے،  اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُسے حرام کیا ہے اوروہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دس عورتوں  کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے (کے گناہ) سے ہلکاہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار رضی  اللہ عنہم ، بقیۃ حدیث المقداد بن الاسود رضی  اللہ تعالٰی عنہ ، ۹ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۳۹۱۵)

(6)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ ا س کی طرف نظر ِرحمت نہ فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں  کے ساتھ تم بھی جہنم میں  داخل ہو جاؤ۔(مسند الفردوس، باب الزای، ۲ / ۳۰۱، الحدیث: ۳۳۷۱)

             اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو زنا جیسے بد ترین گندے اورانتہائی مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔