banner image

Home ur Surah An Noor ayat 3 Translation Tafsir

اَلنُّوْر

An Noor

HR Background

اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً٘-وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌۚ-وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ(3)

ترجمہ: کنزالایمان بدکار مرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت یا شرک والی سے اور بدکار عورت سے نکاح نہ کرے مگر بدکار مرد یا مشرک اور یہ کام ایمان والوں پر حرام ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے گااور یہ ایمان والوں پر حرام ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً: زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرنا پسندکرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرنا پسندکرے گا کیونکہ خبیث کا میلان خبیث ہی کی طرف ہوتا ہے، نیکوں  کو خبیثوں  کی طرف رغبت نہیں  ہوتی۔ اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ فاسق وفاجر شخص نیک اور پارسا عورت سے نکاح کرنے کی رغبت نہیں  رکھتا بلکہ وہ اپنے جیسی فاسقہ فاجرہ عورت سے نکاح کرنا پسند کرتا ہے اسی طرح فاسقہ فاجرہ عورت نیک اور پارسا مرد سے نکاح کرنے کی رغبت نہیں  رکھتی بلکہ وہ اپنے جیسے فاسق وفاجر مرد سے ہی نکاح کرنا پسند کرتی ہے۔شانِ نزول:اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مہاجرین میں  سے بعض بالکل نادار تھے، نہ اُن کے پاس کچھ مال تھا نہ ان کا کوئی عزیز قریب تھا اور بدکار مشرکہ عورتیں  دولت مند اور مالدار تھیں ، یہ دیکھ کر کسی مہاجر کو خیال آیا کہ اگر اُن سے نکاح کرلیا جائے تو ان کی دولت کام میں  آئے گی۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اُنہوں نے اس کی اجازت چاہی تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور انہیں  اس سے روک دیا گیا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۳۵)

{وَ حُرِّمَ: اور حرام ہے۔} یعنی بدکاروں  سے نکاح کرنا ایمان والوں  پر حرام ہے۔ یاد رہے کہ ابتدائے اسلام میں  زانیہ عورت سے نکاح کرنا حرام تھا بعد میں  اس آیت ’’وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ‘‘( ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم میں  سے جو

بغیر نکاح کے ہوں  ان کے نکاح کردو۔)( النور:۳۲) سے یہ حکم مَنسوخ ہوگیا۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳، ص۷۶۹)

بد عقیدہ اور بد کردار لوگوں  کا ساتھی بننے اور بنانے سے بچیں :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ بد عقیدہ اور بری عادات و کردار والے لوگوں  کا ساتھی بننے اورانہیں  اپنا ساتھی بنانے سے بچنا چاہئے اور درست عقائد رکھنے والے نیک و پارسا لوگوں  کا ساتھی بننا اور انہیں  اپنا ساتھی بنانا چاہئے کیونکہ ایک طبیعت دوسری طبیعت سے اثر لیتی ہے اور ایک دوسرے سے تعلقات اپنا اثر دکھاتے ہیں  اور بری عادات بہت جلد بندے میں  سَرایَت کر جاتی ہیں ۔

            حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بنی اسرائیل میں  پہلی خرابی جوآئی وہ یہ تھی کہ ان میں  سے ایک آدمی جب دوسرے آدمی سے ملتا تو اس سے کہتا: اے شخص!  اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو برا کام تم کرتے ہو ا سے چھوڑ دو کیونکہ یہ تیرے لئے جائز نہیں  ہے۔ پھر جب دوسرے دن اس سے ملتا تو اسے منع نہ کرتا کیونکہ وہ کھانے پینے اور بیٹھنے میں  ا س کاشریک ہو جاتاتھا۔جب انہوں  نے ایسا کیا تو  اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے دلوں  کو برے دلوں  سے ملا دیا (اور نیک لوگ بروں  کی صحبت میں  بیٹھنے کی نحوست سے انہی جیسے ہوگئے۔)( ابو داؤد، اوّل کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۲، الحدیث: ۴۳۳۶)

            اورجتنے قریبی ساتھی شوہر اور بیوی ہوتے ہیں  اتنے کوئی اور نہیں  ہوتے اور ان میں  سے کوئی ایک بد عقیدہ یا بد کردار ہو تو اس کے اثرات اتنے خطرناک ہوتے ہیں  کہ بندہ اپنے دین و ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’ غیرمذہب والیوں  کی صحبت آگ ہے، ذی علم، عاقل، بالغ مَردوں  کے مذہب اس میں  بگڑگئے ہیں ، عمران بن حطان رقاشی کاقصہ مشہورہے، یہ تابعین کے زمانہ میں  ایک بڑا محدث تھا، خارجی مذہب کی عورت کی صحبت میں  مَعَاذَ اللہ خود خارجی ہوگیا اور یہ دعویٰ کیاتھا کہ اسے سنی کرنا چاہتا ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۶۹۲)

            لہٰذا جسے اپنے دین و ایمان کی ذرا سی بھی فکر ہے اسے چاہئے کہ وہ بد مذہب مرد یا عورت سے ہر گز ہر گز شادی نہ کرے،یونہی برے کردار والے مرد یا عورت سے شادی کرنے سے بھی بچے بلکہ درست عقائد،اچھے کردار اور نیک و پارسا مرد یا عورت سے شادی کی جائے تاکہ دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی برباد نہ ہو